22 اکتوبر ، 2016
اگلے تین ہفتے وزیر اعظم نواز شریف کے لئے اہم ہیں۔ انہوں نے کچھ اہم فیصلے لینے ہیں جن میں وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے کے پاکستان تحریک انصاف کے خطرے سے سیاسی یا انتظامی طور پر نمٹنے کا مسئلہ، 'پاناما لیکس میں سپریم کورٹ کے سامنے خود کو پیش کرنا، نئے آرمی چیف کی تقرری یا موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کا معاملہ ، اور صحافی سیرل کی خبر کا ڈراپ سین شامل ہیں۔
یہ تمام فیصلے شاید براہ راست ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہیں ہیں لیکن بعض منسلک بھی ہیں. وزیراعظم نواز شریف حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے ہیں اور انہیں لازما سیاسی گرمی کا سامنا ہوگا۔ یہ نہ صرف نواز شریف کے سیاسی تدبر بلکہ ان کے اعصاب کا بھی امتحان ہوگا اور اگر وہ بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے تو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سب سے مضبوط ترین وزیر اعظم کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر انہیں اہم اپوزیشن تحریک انصاف کے عمران خان سے سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا جو سپریم کورٹ کی کارروائی کا خیر مقدم کرنے کے باوجود 22 نومبر کو حکومت کو کام سے روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کا مطلب ہے سرکاری دفاتر کی تالابندی اور وزراء، سیکرٹریز اور دیگر حکام کو دفاتر جانے سے روکنا۔ اب تحریک انصاف اس صورت میں کیا کرے گی اگر قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس بھی انہی دنوں کے دوران ہوا۔ کیا پارلیمنٹرینز یا حکمران جماعت اور اس کے اتحادی ارکان اسمبلیوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں ۔
عمران نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر وہ متعدد 'بریکنگ نیوز دیں گے اور پہلے درجے کی قیادت کی گرفتاری یا گھر میں نظر بندی کی صورت میں انسداد حکمت عملی بھی بنائیں گے۔ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت قائم کردی گئی ہے اور احتجاج کو ملک بھر میں پھیلانے کا ارادہ ہے۔ عمران کو اگر سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی بڑا ریلیف نہیں مل سکا تو وہ بہت مشکل پوزیشن میں پڑجائیں گے۔ تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کا مشورہ ہے کہ وہ اب بھی اسلام آباد بندش میں تاخیر کر سکتے ہیں جب کہ دیگر کو یقین ہے کہ ہزاروں افراد ڈی چوک یا شاہراہ دستور پر آگئے تو حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں پر سیاسی دباؤ ہوگا،تاہم اگر بڑے پیمانے پر تشدد پھیل گیا تو تحریک کی قسمت کے بارے میں سب ہی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
یہ عمران اور تحریک انصاف کی احتجاجی مہارت کا بھی امتحان ہوگا۔تحریک انصاف کے زیادہ تر رہنماؤں کو جیل میں وقت گزارنے کا تجربہ نہیں ہے. خود عمران کو بھی زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹوں کی جیل اور بھوک ہڑتال کا تجربہ ہے۔شاہ محمود قریشی اور ماضی میں پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ رہنے والے تحریک انصاف کے رہنما تو ایسے تجربے سے گزرے ہیں۔
عمران اب جارحانہ موڈ میں ہیں اور انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی حملہ کیا ہے اور سابق صدر، آصف علی زرداری، پر نواز شریف کے ساتھ مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نے پی ٹی آئی کے اس اقدام کا جواب دینے کے لیے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو خاص ٹاسک سونپا ہے۔ وزیراعظم کے پاس اب سپریم کورٹ نوٹس کا جواب دینے اور تحریک انصاف کے 'الٹی میٹم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے دو ہفتے ہیں۔
حکومت ایک بڑی سیاسی غلطی کرے گی اگر اس نے عمران اور تحریک انصاف کے دیگر اعلی رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح دیگر اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کے قریب آسکتی ہیں، جنہوں نے اب تک عمران کی تحریک سے فاصلہ رکھا ہے۔ جمعرات کو وزیر اعظم کا بیان اور سپریم کورٹ کے حکم کا خیر مقدم بھی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس میں وہ مرکزی مدعا علیہ ہیں. یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی صورت میں نواز شریف نے خود کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی بھی نتائج کے لئے ذہنی طور پر تیار کرلیا ہے۔
ان کے بیان سے بھی عمران پر اخلاقی اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک اسلام آباد محاصرے کو ملتوی کرنے کا دباؤ پڑا ہے. اگلے تین ہفتوں میں وزیر اعظم نے نئے آرمی چیف کی تقرری یا پھر جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کا ایک اور اہم فیصلہ کرنا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اس سال کے شروع میں تمام قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا تھا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے اور نومبر، 2016 میں وقت ریٹائر ہوں گے۔
وزیراعظم نواز شریف نے جب تین سینئر ترین جرنیلوں میں سے جنرل راحیل شریف کا تقرر کیا تو کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ کچھ سینئر دفاعی تجزیہ کار اس بار بھی وزیر اعظم سے اسی طرح کے فیصلے کی امید رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایک پوری مدت کی توسیع لی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی فوج کے سربراہ اور صدر کے طور پر تقریبا نو سال گزارے۔ ذرائع کے مطابق ایک اور معاملہ ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم دباؤ میں ہیں یعنی سیرل المیڈا کی خبر کی تحقیقات کے نتائج آنا۔
حکومتی تحقیقاتی ٹیم نے ابھی تک وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش نہیں کی، جب کہ 'دوسری طرف' اندرونی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں لیکن، وزیراعظم کے فیصلے کا انتظار ہے۔ وزیراعظم کےلیے یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوسکتا خاص طور پر جب حکومت کے کچھ آدمیوں پر شبہ ہے۔ 'لیکس کے بعد سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے ہی وزیر اعظم سے تین ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ شریف کے لئے آزمائش کا وقت ہے، اور وہ پانامہ سے ڈان تک مسلسل ایک سے دوسری لیک کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔ اگلے تین ہفتوں میں سیاسی پیش رفتیں وزیراعظم، ان کی حکومت، حزب اختلاف، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ، عدلیہ اور اسٹیشلمنٹ سب کا امتحان ہوگا۔
اشارے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کے چار پوائنٹس پر حکومت کے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں جن میں وزیر خارجہ کی تقرری، پیپلز پارٹی کا پاناما بل اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری پر مطالبات تسلیم کرنا شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان مطالبات پر کچھ لو اور دو ہو سکتا ہے۔ پی پی پی نے حکومت کو 27 دسمبر تک الٹی میٹم دیا ہے،جب پیپلز پارٹی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی برسی منائے گی۔
پی پی پی کے چیئرمین جانتے ہیں کہ اس دوران بہت کچھ ہو جائے گا ، جب ان کی پارٹی آصف علی زرداری کی متوقع آمد کے ساتھ اصل 'انتخابی مہم شروع کرے گی ۔ لہذا، ہم سب کو اگلے تین ہفتوں میں سیاسی نتائج کے لئے انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ نومبر کے آخر تک نظام کا تسلسل ہوتا ہے یا کسی قسم کی تبدیلی آتی ہے۔