بلاگ
05 جنوری ، 2017

سہما ہوا دمشق

سہما ہوا دمشق

 

تحریر: علی عمران سید

دنیا کی قدیم ترین تہذیب اور تمدن کے حامل شہر دمشق کو مسلم سلطنت کا مرکز اور فن و ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، آج تاریخ کا یہ اثاثہ تباہی کا شکار ہے، جہاں کی گلیاں اور بازار دنیا بھر سے آئے سیاحوں اور تاجروں سے بھرے رہتے، خوب صورتی سے سجی دکانیں اور قدیم فنون کی شاہکار عمارتیں سب کی توجہ کا مرکز ہوتی تھیں، سیاحت کے اس اہم مرکز اور شام کے دارالخلافہ دمشق کے ایئر پورٹ پر ہر روز سیکڑوں مسافروں کو لیے درجنوں پروازوں کا اترنا معمول کی بات تھی لیکن آج چند طیارے ہی دمشق ایئر پورٹ پر اترتے دکھائی دیتے ہیں، شام کا سفر کرنے والے مسافروں کے چہروں پر فکرمندی کے آثار واضح نظر آتے ہیں اور جہاز اترنے سے پہلے ہی چھایا سناٹا، مایوسی اور خوف کا احساس مسافروں میں محسوس کیا جاسکتا ہے، رات میں لینڈنگ کے وقت ہر بڑا شہر روشنیوں سے منور نظر آتا ہے لیکن دمشق پر اندھیروں کا راج اس شہر کو اور بھی زیادہ ڈراؤنا بنا دیتا ہے۔

میرا ملک شام کے سفر کا مقصد یہاں کے حالات جاننا اور اپنے ٹی وی ’جیو نیوز‘ کے لیے رپورٹنگ کرنا تھا، ایئرپورٹ پر جہاز کے پچھلے پہیے لگتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کے مضافاتی علاقوں مخیم یرموک، غوطہ شرقی اور جوبر میں داعش کے جنگجو چار برسوں سے موجود ہیں، دمشق میں شامی اور اتحادی افواج اور داعش کے جنگجو ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔

شام میں جاری جنگ کی رپورٹنگ کے دوران بڑی تعداد میں صحافی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور یہ خیال بھی پریشانی کا سبب بن رہا تھا لیکن پیشہ وارانہ ذمہ داری اور مشرق وسطیٰ کے سب سے خطرناک، پیچیدہ اور جان لیوا بحران کو قریب سے جاننے کی آرزو نے خوف پر کسی حد تک قابو پالیا۔

پاکستانی سفارت خانے، سفیر اور ناظم الامور کو اپنی آمد سے مطلع کیے جانے کے باجود کوئی رہنمائی اور جواب نہ ملا تو رات کے اندھیرے اور شدید دھند میں از خود ایک انجان ڈرائیور کا انتخاب میری مجبوری تھی، دھند اتنی شدیدتھی کہ چند فٹ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، بالکل اسی طرح جیسے عالمی اور علاقائی طاقتوں کے لیے شطرنج کی بساط بنے اس ملک میں جلد امن قائم ہوتا دکھائی نہیں دیتا، مسلسل جنگی حالات سے اس خوب صورت شہر اور ملک کی تباہ حالی کے سبب یہاں کی عوام غربت کا شکار ہیں، ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ اب یہ شہر محفوظ نہیں رہا ، یہاں اغوا اور لوٹ مار بہت عام ہے، اسی لیے ہوٹل کے راستے میں اندھیرے کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیا، شاید یہی سبب تھا کہ شہر میں بے چینی طاری تھی، ٹیکسی ڈرائیور داعش اور نصرہ فرنٹ کے قصے سنا کر ہمارے کیمرہ مین زبیر الدین کو مزید سراسیمہ کرتا اور یہاں جاری خانہ جنگی کے واقعات بتاتا رہا۔

شامی دارالحکومت کو دنیا کا سب سے قدیم آبادی والا شہر کہا جاتا ہے، خوبصورت دل والے باسیوں کا شہر، مختلف قومیتوں اور مسلکوں کے شہریوں کا شہر، تمام برادریوں میں مثالی محبت کا حامل یہ شہر آج خوف اور بے بسی کا شکار ہے، ان حالات کے باوجود دوسرے علاقوں کی نسبت کچھ پرامن دمشق، ماں کی گود کی طرح بے گھر اور جنگ سے متاثرہ لاکھوں شامیوں کو پناہ دے رہا ہے، گو کہ یہ شہر بھی داعش کے نشانے پر ہے لیکن اپنی 20لاکھ آبادی کےساتھ مزید 20لاکھ افراد کو پناہ دے رہا ہے۔

دمشق کے باسی حقائق اور ماضی کے تجربات سے آگاہ ہیں، اسی لیے انہیں حالیہ سیز فائر کا انجام بھی گزشتہ جنگ بندیوں جیسا دکھائی دے رہا ہے، گزشتہ سال تین مرتبہ جنگ بندی ہوئی ،جن کا اختتام ناکامی پر ہوا لیکن حالیہ جنگ بندی گزشتہ سے یوں مختلف ہے کہ ترکی بھی اس میں شامل ہے لیکن مشکل یہ ہےکہ سعودی عرب اور قطر سے اب تک بات چیت کا آغاز نہیں کیا گیا، جنگجو قائدین کا اصرار ہے کہ بات چیت سےپہلے مکمل جنگ بندی کی جائے جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ وادی برادہ سے باغیوں کا قبضہ چھڑا کر دمشق کا پانی بحال کرایا جائے، افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ زندگی کی علامت اورضرورت، پانی کی بندش کا الزام ہمیشہ کی طرح اس بار بھی باغی اور حکومت ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ امن معاہدہ ایسا نہیں جو دیرپا امن کو یقینی بنا سکے، داعش اور نصرہ فرنٹ جیسے گروہ جو جنگ بندی سے باہر ہیں ان کے خلاف ترک سرحد پر کارروائی ہو سکتی ہے تو وادی برادہ میں کیوں نہیں؟ جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹیں تو ہیں لیکن اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، ترکی اور روس کا حالیہ تعلق اور ان کی ایران اور عرب ملکوں سے قربت اس مشکل معاملے کو کسی حل کی جانب لے جاسکتی ہے، لیکن ایسی کسی بھی امید کے لیے ضروری ہو گا کہ آستانہ مذاکرات کے بارے میں سعودی عرب اور قطر کو شامل کیا جائے یا کم از کم اعتماد میں لیا جائے۔

دمشق کی زندگی بظاہر معمول کے مطابق محسوس ہوتی ہے لیکن داعش جیسے گروہوں کے ہلا بولنے کا خوف لوگوں کو سونے نہیں دیتا، حالیہ جنگ بندی کے بارے میں عوام زیادہ پر امید نہیں ہیں کیوں کہ اب تک کوئی بھی سیز فائر چند ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکا، دمشق کے باسیوں کو خوب اندازہ ہے کہ پانچ سال سے جاری جنگ سے سب تھک چکے ہیں، یہ سب باتیں جانتے ہوئے اگر غیر میدانی جغرافیہ والے شامی دارالحکومت پر سفر کے دوران ڈرائیور انگلی کے اشارے سے درایا، غوطہ شرقی، مخیم یرموک جیسے علاقوں کی طرف اشارہ کرے اور علاقے آنکھوں سے دکھائی دیں تو ایک عام شامی کے شدید خدشات صحیح طرح سمجھے جاسکتے ہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ اگر ترکی اور روس کی جانب سے حالیہ جنگ بندی اور بات چیت کام یاب بھی ہو جائے تو داعش اور نصرہ فرنٹ جیسے گروہ دمشق کو نشانے پر لیے رہیں گے، دمشق دنیا کا واحد دارالحکومت ہے جس کے قریب شدت پسند عناصر اتنے قریب اور طویل عرصے سےموجود ہیں، دمشق کے باسی اس مشکل سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جنگ بندی کے لیے کیے جانے والے مذاکرات سے باہر شدت پسند جنگجوؤں کی تعداد 35 ہزار کے قریب ہے جبکہ بے روزگاری اور تعلیمی نظام برباد ہونے کے سبب عراق اور شام سے ان گروہوں کیلئے جنگی ایندھن با آسانی فراہم ہو سکتا ہے بس شرط یہ ہےکہ جو قوتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں وہ رقم فراہم کرتی رہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام کو طویل عرصے تک خانہ جنگی میں مصروف رکھنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، یہاں حقیقی جمہوریت یا کوئی اور نظام لانے کا کوئی منصوبہ نہیں اور اس کا اندازہ اپوزیشن اور عسکریت پسند گروہوں کی تعداد سے ہوتا ہے، ان سیاسی اور عسکری گروہوں میں بغاوت کے دوران بھی اختلافات اور لڑائیاں چلتی رہی ہیں، اگر ترکی اور روس کی قربت اور ڈونلڈ ٹرمپ کے آمد کے بعد کسی ڈیل کے نتیجے میں اسد حکومت چلی بھی گئی تو اتنے گروہوں کی موجودگی ملک شام کو افغانستان جیسی صورت حال میں ڈال سکتی ہے۔

دمشق نے ہزاروں سال میں بےشمارچیلنجز دیکھے ہیں لیکن اتنا پیچیدہ، مشکل ترین اور یکدم سرپرائز اس شہر کو کبھی نہ ملا ہوگا کہ جہاں ایک ٹی ٹی پستول ملنا مشکل ہو وہاں جہازوں کو گرانے والے راکٹ سمیت ہر طرح کا اسلحہ اچانک نمودار ہو جائے۔

شہر کے موڈ اور شامیوں کے تاثرات جاننے کےلیے دمشق کے علاقے مازے سے گزر ہوا تو ایک شامی نے پاکستانی میڈیا سے تعلق کی مناسبت سے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے پڑوسی ملک افغانستان میں امریکا نے طالبان کا محض چند دنوں میں صفایا کردیا تھا لیکن 2014ء سے اب تک امریکا اور اتحادیوں کی سینکڑوں کارروایوں کے باجود شام اور عراق سے داعش کیوں ختم نہ ہوسکی؟ اس سوال کا میں جواب نہ دے سکا، لیکن لمحوں بعد اکتوبر 2014ء کی واشنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹ کی خبر یاد آئی جس کی شہہ سرخی تھی کہ ’’امریکی طیاروں نے ’غلطی‘ سے داعش کے علاقوں میں اسلحے سے بھرے ڈبے پھینک دیے‘‘۔

اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ عوام کی اکثریت امن سے رہنا چاہتی ہے لیکن عالمی طاقتیں دنیا پر حکومت کرنے کے خواب کی تکمیل کے لیے آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں اور کب تک اس جنگ کا ایندھن معصوم جانیں بنتی رہیں گی؟ اس سوال کا جواب بھی شاید کسی کے پاس نہیں، کاش کہ اربوں ڈالر جنگ میں جھونکنےوالے اس دولت کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کریں تو ہماری یہ خوب صورت زمین امن اور آشتی کا گہوارہ بن جائے، لیکن طاقت کے ان جنونیوں کو کون سمجھائے۔