بلاگ
28 فروری ، 2017

 عرفان اللہ مروت کا تنازع کیا ہے؟

  عرفان اللہ مروت کا تنازع کیا ہے؟

پیپلزپارٹی کا شریک چیئرمین بننے کے بعد آصف علی زرداری کو کبھی ایسی سیاسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑا جتنا بے ساختہ اور شدید رَدّعمل متنازع عرفان اللہ مروت کی زرداری سے طویل ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت پر خود اُن کی بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے ظاہر کیا۔ اس رَدّعمل کی وجوہ اور پشت پر تنازع کیا ہے؟ عرفان اللہ مروت سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم کے داماد ہیں۔ وہ ایک انتہائی طاقت ور وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی مرحوم کے دور کی سی آئی اے کے سابق ڈی آئی جی سمیع اللہ مروت کے ساتھ مل کر متنازع شخصیت رہے۔

بے نظیر بھٹو نے ان پر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں پر ظلم و تشدد کا الزام لگایا جس نے انہیں ضیاء الحق دور کے مظالم کی یاد دِلا دی تھی۔ باخبر ذرائع کے مطابق آصف زرداری جو اس وقت 2018ء کے عام انتخابات کے لئے اپنے ’’گیم پلان‘‘ پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی چالوں کے ذریعہ سندھ سے زیادہ سے زیادہ نشستوں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں، یہ ایسا ہی کردار ہے جیسا سیف اللہ خاندان نے خیبر پختون خوا میں ادا کیا۔

ذرائع مزید کہتے ہیں کہ ایک ’’بااَثر مروت‘‘ کا پیپلزپارٹی اور مروت کے درمیان اختلافات طے کرانے میں کردار ہے، جو کراچی کے کچھ حلقوں میں ایم کیو ایم کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے میں کام آ سکتے ہیں۔ آصف زرداری 1990ء سے 1993ء کے درمیان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں مروت کے متنازع کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جس کی بدترین مثال سندھ اسمبلی کی موجوہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور سابق اسپیکر راحیلہ ٹوانہ ہیں۔ دونوں کو گرفتار کر کے سی آئی اے سنٹر میں تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ راحیلہ ٹوانہ تو مہینوں تک جناح اسپتال میں ڈاکٹر ہارون کے نفسیاتی وارڈ میں زیرِ علاج بھی رہیں۔

1993ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو سابق ڈی آئی جی ،سی آئی اے سمیع اللہ مروت کو گرفتار کرایا گیا۔ بعدازاں وہ پولیس سے برطرف کر دیئے گئے۔ پولیس میں غیرقانونی بھرتیوں، وینا حیات، شہلا رضا اور راحیلہ ٹوانہ کیسز میں پیپلزپارٹی عرفان اللہ مروت کے خلاف تحقیقات بھی شروع کرنا چاہتی تھی۔

سمیع اللہ مروت کو عرفان اللہ مروت کا فرنٹ مین تصورکیا جاتا تھا لیکن قانون کی عدالت میں ان پر کوئی براہ راست الزام عائد نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ پولیس کی زیادتیوں پر لیفٹیننٹ جنرل شفیق الرحمٰن رپورٹ میں بھی جام صادق علی یا عرفان اللہ مروت کو براہ راست مورد الزام ٹھہرانے سے گریز کیا گیا، لیکن یہ ضرور تحریر کیا کہ ڈی آئی جی، سی آئی اے اُوپر سے پشت پناہی کے بغیر اَزخود کچھ نہیں کرسکتےتھے۔ تاہم اس جامع رپورٹ کے باوجود پیپلزپارٹی نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

شفیق الرحمٰن رپورٹ میں تشدد، بھتہ خوری، زنا بالجبر، سیاسی کارکنوں اور کاروباری شخصیات کو ہراساں کئے جانے کا ذکر موجود تھا۔ جس میں عرفان اللہ مروت اور حکومت سندھ کی اعلیٰ شخصیات کے کردار کو بھی رَدّ نہیں کیا گیا، سمیع اللہ مروت کو تو صرف آلۂ کار قرار دیا گیا تھا۔ بختاور اور آصفہ کم عمر تھیں لیکن انہیں جام صادق یا عرفان اللہ مروت کے بارے میں اپنی والدہ کا مؤقف اچھی طرح ذہن نشین ہے۔ فطری طور پر ان کا رَدّعمل بھی فوری طور پر سامنے آیا۔

آصف علی زرداری کی سیاست کا مقصد کراچی سمیت سندھ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن مستحکم کرنا ہے۔ اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس عمل میں وہ یہ بھول گئے کہ پارٹی کی بنیادیں تیزی سے کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے واضح اثرات پنجاب اور حتیٰ کہ سندھ میں تک نمایاں ہوئے، جہاں نشستوں کی تعداد بڑھنے کے باوجود اس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا تناسب گر گیا۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں سے اکثر مستقبل میں کسی بحران یا آپریشن کے نتیجے میں پیپلزپارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔

2008ء میں گجرات کے چوہدریوں سے ہاتھ ملا کر زرداری نے اپنی پارٹی کے اکثر نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں کو حیران کر دیا تھا جو آج بھی سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی محمد مشتاق کا وہ قلم استعمال کرتے ہیں جس سے انہوں نے پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے لئے سزائے موت کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے خصوصاً گجرات سے کچھ رہنمائوں نے چوہدری شجاعت حسین کو ساتھ ملانے پر شدید رَدّعمل ظاہر کیا تھا، لیکن زرداری نے اسے پارٹی مفاد میں قرار دے کر اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا۔

2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا گجرات سے صفایا ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے ایک اور سابق رہنما فیصل صالح حیات جو 2002ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے کے باوجود دھوکہ دے کر پیٹریاٹ گروپ بنانے والوں میں شامل تھے وہ بھی کراچی میں زرداری سے ملنے کے بعد پیپلزپارٹی میں واپس آ گئے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس میں وہ مرکزی درخواست گزار تھے۔ دوسرے پیپلزپارٹی میں ان کی واپسی نے پیپلزپارٹی کے اندر ہی جھنگ سے ان کی سیاسی حریف بیگم عابدہ حسین کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ چوہدریوں سے لے کر مروت تک دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی پیپلزپارٹی کے خلاف اپنے سابقہ مؤقف پر کوئی معذرت کرنے سے انکار کر دیا بلکہ انہوں نے تو اپنے اس وقت پیپلزپارٹی مخالف مؤقف کا دفاع ہی کیا۔ عرفان اللہ مروت نے اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا جبکہ فیصل صالح حیات، راجا پرویز کے خلاف مقدمہ واپس لینے پر آمادہ نہیں ہوئے اور چوہدری نے ’’قلم‘‘ بطور تحفہ اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔

اُدھر پیپلزپارٹی مخالف رہنمائوں کی شمولیت پر اندرون پارٹی بڑی بے چینی پائی جاتی ہے جس سے آگےچل کر تنظیمی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اس کا عکس اس وقت سامنے آیا جب امتیاز شیخ جو جام صادق علی حکومت کا حصہ رہے۔

پیپلزپارٹی میں آنے کے بعد انتخاب لڑا اور الزام لگایا کہ پارٹی کی مقامی قیادت نے ان کے خلاف کام کیا چونکہ پارٹی امور سے متعلق فیصلے آصف زرداری ہی کر رہے ہیں، جس نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو مشکل اور پریشان کن پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے وہ خود تو پارٹی کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن دوسری جانب آصف زرداری جو پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے بھی صدر ہیں، وہ آئندہ عام انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ اب یہ واضح ہو چکا کہ پیپلزپارٹی پنجاب سے الیکشن نہیں جیت سکتی۔

ذرائع کے مطابق زرداری یہ بھی جانتے ہیں کہ پاناما پر سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی یا استعفے کی صورت میں آیا تو قبل اَز وقت انتخابات کےامکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا وہ اس کا سیاسی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ پنجاب میں ووٹ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں تقسیم ہو سکتے ہیں اور سیاسی سودے بازی میں اس کا فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔

چوہدریوں یا دیگر کے مقابلے میں عرفان اللہ مروت کا مشکل ہی سے کوئی حلقہ انتخاب ہے۔ اگر کوئی حلقہ بنتا ہے تو وہ بھی کراچی میں محمود آباد کے علاقے سے صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے تو پھر زرداری نے یہ غیرمقبول فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ وہ خیبر پختون خوا میں سیف اللہ خاندان کو خوش کرنا چاہتے ہیں تا کہ بدلے میں وہاں حمایت حاصل کرسکیں۔

پارٹی یا اندرون خاندان اختلاف صحت مند علامت ہے لیکن اس دور میں مظالم کا شکار شہلا رضا نے جو کچھ کہا وہ بڑا معنٰی خیز ہے۔ ’’سیاست بڑا ظالم پیشہ ہے۔ مجھے اپنی سیاسی خواہشات اور نظریات کے خلاف بہت کچھ قبول کرنا پڑا‘‘ ملک میں سیاست اسی طرح سے چلتی ہے۔ بی بی کی بیٹیوں کے رَدّعمل پر ان کے لئے میرے دِل میں بڑا احترام ہے۔ 10 سال قبل میرا بھی رَدّعمل یہی ہوتا۔ اگر آج پارٹی نے عرفان مروت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘  اورکچھ زیادہ کہے بغیر انہوں نے یہ سب کچھ کہہ دیا۔