02 مارچ ، 2017
آج کے روز36سال قبل 2 مارچ1981 کو ایک واقعہ جس سے نہ صرف فوجی آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد کو زبردست نقصان پہنچا بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی خسارہ اٹھانا پڑا۔ اس نے بھٹو خاندان میں بھی پھوٹ ڈالی اور اسے تقسیم کردیا۔
کراچی سے پشاور کے لئے پی آئی اے کی پرواز اغواء کرکے کابل لے جائی گئی۔ پیپلز پارٹی کو اس واقعہ سے سنبھلنے میں برسوں لگ گئے۔ فضائی سفر کی تاریخ کے بڑے ہائی جیکنگ واقعات میں سے اس ایک کا ڈراپ سین13 دنوں بعد 54سیاسی قیدتوں کی رہائی سے ہوا۔
اس واقعہ سے کسی ایک شخص کو فائدہ ہوا تو وہ مرحوم ضیاء الحق تھے، جس نے ان کے اقتدار کو طول دینے میں ان کی مدد کی۔ اس ڈرامے کے پیچھے اصل کہانی سے کم لوگ ہی واقف ہیں۔ پہلی بار پاکستانیوں کو کسی الذوالفقار تنظیم کے وجود سے آگاہی ہوئی۔ جس کے رہنما مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو تھے۔
ایک رہنما سے سیاسی عشق کی یہ کوئی داستان تھی یا حقیقت لیکن تمام برسوں کےدوران تین میں سے دو ہائی جیکرز کی حیثیت رہی اور نہ ہی کوئی قومیت۔ وہ ایک کونے سے دوسرے چھپے پھرتے اور اجنبیوں کی طرح زندگی گزارتے رہے۔ انہیں اپنی اس حالت پر کوئی افسوس تھا؟ اپنے دوستوں سے نجی گفتگو میں وہ کف افسوس تو ملتے ر ہے لیکن ابھی تک کھل کر کچھ نہیں کہا۔
اس واقعہ سے باخبر ایک ذریعہ نے انکشاف کیا کہ کراچی سے پشاور کے لئے پرواز میں چڑھتے وقت ایک ہائی جیکر کو تو اپنے سفر کا مقصد تک معلوم نہ تھا۔دوسرے آج تک پیپلز پارٹی کے ان 19 کارکنوں کا کچھ پتہ نہیں جو ہائی جیکرز کے مطالبے پر رہا کئے گئے تھے لیکن واپس آنے کے کئی ماہ بعد لاپتہ ہوگئے۔ تیسرے یہ بے نظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کے درمیان اختلافات کی ابتداء تھی۔1986 میں اپنی جلاوطنی سے واپسی کے بعد بے نظیر نے مرتضیٰ سے فاصلہ اختیار کرلیا۔
اس ڈرامے کی تفصیلات جمع کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک ہائی جیکر ارشد جو تذبذب کا شکار رہا ۔ اس کا تیسرا ہائی جیکر بننے سے قبل کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔ ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو اور اس کے عم زاد ناصر جمال نے ارشد کو بتایا تھا کہ وہ پشاور میں اترنے کے بعد مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو سے ملنے سڑک کے راستے کابل جائیں گے۔ طیارہ اغواء کے مرکزی کردار سلام اللہ ٹیپو کو 1984میں کابل میں ایک افغان باشندے کے قتل کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی۔ ناصر جمال اور ارشد مفروروں کی زندگی گزارتےرہے یا انہیں ملک شام چھوڑنے کے بعد لیبیا کی حکومت نے قید میں رکھا۔ذرائع کے مطابق ناصر جمال اور ارشد لیبیا میں سیاسی تبدیلیوں اور کرنل قذافی کی موت کے بعد وہاں سے بھی نامعلوم مقام کو روانہ ہوگئے۔
1980 کی دہائی میں میر مرتضیٰ بھٹو کے تشکیل کردہ دہشت گرد گروپ کا خاتمہ 1993میں ہوا جب انہوں نے خود الذوالفقار کو خیرباد کہہ دیا، پرتشدد سیاست سے رجوع کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) قائم کی۔ الذوالفقار حقیقت تھی یا داستان لیکن اس سے یقیناً سیاسی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچا اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ڈالے گئے۔
مرتضیٰ بھٹو 1996 میں ایک متنازع پولیس مقابلے میں قتل کردیئے گئے۔ دہشت گردی کا خود اپنا مظہر ہوتا ہے لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے معاشرے اور آنے والی نسلوں پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔ ضیاء دور میں تقریباً 11سال پیپلز پارٹی کےکارکنان اس ’’مہم جوئی‘‘ کی سزا بھگتتے رہے۔ جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھائے جانے کے ردعمل میں انتقام لینے کی خاطر کی گئی۔
ہائی جیکرز کےمطالبے پر پیپلز پارٹی کے جو کارکن رہا کئے گئے، انہیں دمشق لے جایا گیا۔ پہلے منصوبہ طیارہ کابل لے جانے کا تھا جہاں ٹیپو نے کیپٹن رحیم کو قتل کردیا تھا مقتول کیپٹن کبھی بھٹو مرحوم کے پرائیویٹ سیکریٹری رہے۔ ارشد جو ناصر جمال کا عم زاد تھا، اسے طیارہ اغواء منصوبے کا علم تک نہ تھا۔ تینوں پی ایس ایف کے کارکنان تھے۔ ارشد کو بتایا گیا تھا کہ وہ مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو سے ملنے کا بل جارہے ہیں۔
منصوبے پر عمل درآمد سے چند دنوں قبل ٹیپو کو مزید احکامات تک منصوبہ ملتوی کرنے کا پیغام ملا۔ لیکن وہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بے چین تھا کیونکہ جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک کارکن کو قتل کرنے کے الزام میں پولیس اس کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔ طیارہ اغواء کرنے سے قبل وہ کابل گیا اور ہدایات لینے کے لئے مبینہ طور پر مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات کی۔ طیارہ اغواء کرنے کے بعد اس کا رخ پہلے کابل کی جانب موڑا گیا اور بعد ازاں دمشق میں اتارا گیا۔
اس واقعہ پر دو تین سال بعد ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد کی راہیں جدا ہوگئیں۔ ٹیپو کابل میں پھانسی چڑھ گیا۔ ناصر اور ارشد تریپولی چلے گئے۔ بھٹو کو پھانسی کا ضیاء الحق سے انتقام لینے کا رومانس طیارے کے اغواء کا سبب بنا۔لیکن اول اس کا خاتمہ بے نظیر کی جانب سے واقعہ کی مذمت کئے جانے کی صورت نکلا اور انہوں نے الذوالفقار سے فاصلہ اختیار کیا۔ پھر بعد ازاں مرتضیٰ بھٹو نے بھی عسکریت پسندی چھوڑ کر 1993میں اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) بنالی۔ ناصر اور ارشد نے گوکہ شادیاں کرلیں لیکن معمول کی زندگیاں نہیں گزار سکے۔ گزشتہ دس سال وہ جیل میں یا دوستوں کے ساتھ وقت کاٹتے رہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ کسی قومیت کے بغیر جلاوطنی میں دن گزاررہے ہیں۔ کرنل قذافی کے بعدلیبیا میں سیاسی تبدیلیوں نے ان کے مسائل میں اضافہ ہی کیا اور لیبیا چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ معلوم ہوا ہے کہ ارشد کی بیوی نے لیبیا چھوڑنے کے لئے اس پر دبائو ڈالا اور پناہ گزین کی حیثیت سے پناہ لینے کا مشورہ دیا۔
الذوالفقار کی داستان بھی سیاسی رومانس کا شکار ہونے والے نوجوان کارکنوں کے لئے چشم کشا ہے۔ ناصر اور ارشد خصوصاً گزشتہ 20 برسوں سے بڑی اذیت اور مشقت سے گزرے۔ وہ ایک سے دوسرے ملک منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ جب مرتضیٰ بھٹو مسلح جدوجہد ترک کرکے پاکستان واپس چلے آئے۔تو وہ ہائی جیکرز کو معافی نہ دلاسکے۔انہوں نے دمشق چھوڑنے کے بعد الذوالفقار کے تمام یونٹس بند کردیئے۔ ابتداء میں ناصر اور ارشد سے بہتر سلوک ہوا، انہیں لیبیا میں ملازمتیں بھی ملیں لیکن بعد ازاں انہیں گرفتارکرکے چند برسوں کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا۔
لیبیا میں کرنل قذافی کے زوال کے بعد حالات ان کے لئے مزید بدتر ہوگئے دیگر تو عسکریت پسندانہ سیاست ترک اور سیاسی پناہ لے کر مختلف ممالک کو چلے گئے لیکن ان کا مخمصہ جاری رہا کیونکہ 1981میں جب انہوں نے پاکستان چھوڑا تو ان کے پاس پاسپورٹ تھا اور نہ ہی قومی شناختی کارڈ، لیبیا اور شام میں حالات بگڑنے کےبعد یہ دونوں غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے بری اور بحری راستوں سے مختلف ممالک میں سفر کرتے رہے۔ ان کے فوری خاندانوں کا صدمہ اس سے زیادہ سنگین ہے جہاں شام اور لیبیا میں قیام کے دوران انہوں نے شادیاں کی تھیں۔ الذوالفقار کے سیکڑوں عسکر یت پسند بھی مختلف صدمات سے گزرے۔ بعض دنیا سے چل بسے، کچھ قتل کردیئے گئے اورکم از کم 20ہنوز لاپتہ ہیں۔ جس میں گروپ کا سربراہ منظر عالم شامل ہے۔ ان میں الطاف عباسی کا نام بھی لیا جاتاہے، جس کا 1972 کے میونخ اولمپکس کے موقع پر فلسطینیوں کے ایک گروپ کی جانب سے اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنانے میں بھی کردار بتایا جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو نے الذالفقار کو کبھی قبول نہیں کیا، وہ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے کچھ کارکنوں نے پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل او) بھی بنالی تھی۔ جس نے بھٹو کو جیل سے چھڑانے کی کوشش بھی کی لیکن انہوں نے سیاسی اور قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے انکار کردیا تھا ۔ آج خود ان کی پارٹی سمیت کوئی ایسا نہیں جو ان کی معذرت قبول کرے۔ حتیٰ کہ این آر او بھی انہیں نہیں چھڑ اسکا ۔ یہ ایسے ہزاروں نوجوان ذہنوں کی کہانی ہے جنہوں نے ہم جوئی اور انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا۔ اپنے لیڈر یا نظریہ کے نام پر ہتھیار اٹھائے لیکن ان کی زندگیوں کا خاتمہ عبرتناک رہا۔