03 مارچ ، 2017
راجہ زاہد اختر خانزادہ...امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر پیرس کے میئراور پاکستانی نژادامریکن ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے کہا ہےکہ امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کو ٹرمپ کی پالیسوں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
ڈیلس شہر میںواقع اپنی رہائش گاہ پر جیو اور جنگ کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہو ئے ڈاکٹر ارجمند ہاشمی کا کہنا تھاکہ ٹرمپ انتظامیہ نے سات ممالک سے متعلق ایگزیکٹو آڈر اس لیے جاری کیا گیا تھا کہ ان ممالک میں حکومتیں مکمل طور پر کام نہیں کر رہی ہیں جس کی وجہ سے امریکا آنے والے لوگوں کے بارے میں حکومت کو صیح معلومات کے حصول میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔
ڈاکٹر ارجمند ہاشمی کا مزید کہنا تھا کہ ان پابندیوں کو جواز بناتے ہوئے یہ سوچنا کہ یہ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف اقدام تھا درست عمل نہیں، انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کویت مسلمان ملک ہے جس نے پاکستانیوں کیلئے ویزا بند کیا ہوا ہے لیکن اس بات کا کوئی ذکر نہیں۔
اس طرح دیگر مسلم ممالک نے بھی پاکستانی ورکروں کے ویزوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ اقدام کسی ملک کے خلاف ہے یا کہ مسلمانوں کے خلاف ہے ،اگر یہ عمل مسلمان ملک کرے تو درست اور اگر کوئی دوسرا کرےء تو غلط کیوں اوراس کے خلاف پراپگنڈا کیوں کیا جاتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ یہ واقعی اتفاق تھا کہ ویزا پر پابندی ایسے ممالک پر لگی جو کہ مسلمان ملک تھے تاہم وہاں پر دیگر مذہب کے ماننے والے بھی بستے ہیں اس طرح ٹرمپ نے میکسیکو کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا وہ تو مسلمان ملک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مناسب بات یہ ہوتی کہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آخر کن وجوہات کی بنیاد پر پابندی عائد کی گئی ہے،ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ہے مگر امریکا کے پاسپورٹ میں ایسا نہیں ہے اگر یہاں کا امیگریشن آفیسر آپ سے یہ سوال پوچھ لیتا ہے کہ آپ مسلمان ہیں تو اس کا جواب دینے میں کیا حرج ہے، ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں ضرور بتائوں گا کہ میں مسلمان ہوں اور اس بات پر مجھے فخر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وہ حال ہی میں پاکستان گئے واپسی پر ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں پاکستان گئے تھے جس کا جواب انہوں نے دیا اور امیگریشن آفیسر نے ویلکم بیک کر کے میرا پاسپورٹ مجھے واپس دے دیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ائیرپورٹ پر امیگریشن اور کسٹم حکام کی جانب سے سوال و جواب کرنا حراساں کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ٹھوک بجا کر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ آنے والا شخص درست ہے ہا غلط ۔
اسی طرح اگر آپ صحیح ہیں تو آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ عمل ایک سخت اور اچانک عمل ہے اگر یہی چیزیں آہستہ کی جاتیں تو کسی کو یہ بات محسوس بھی نہ ہوتی کیونکہ جن لوگوں کو بغیر سوال و جواب امریکا آنے جانے کی عادتیں پڑی ہوئی ہیں ظاہر ہے ان کو ٹریک پر آنے میں وقت لگے گا۔
ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے کہا کہ صدر ٹرمپ کئی وعدوں کے ساتھ برسراقتدار آئے ہیںاور یہ سب وہی چیزیں ہیں جن کا وہ اپنی انتخابی مہم میں بار بار ذکر کرتے رہے ہیں اسی بنیاد پر ٹرمپ کو لوگوں نے ووٹ دیا ہےاب اگر ٹرمپ یہ وعدے پورے نہیں کریں گے تو پھر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کریں ۔ ایگزیکٹو آڈر کے اجراء میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئیں اور اگر یہ سب کچھ آہستہ آہستہ کیا جاتا تو کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ ان کو حراساں کیا جا رہا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر ارجمند ہاشمی نے کہا کہ مسلمان ممالک سے مہاجرین کی آباد کاری صرف امریکا کی ذمہ داری نہیں ،انہوں نے کہا کہ کتنے مسلمان ممالک ہیں جنہوں نے ان مسلمانوں کو پناہ دی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی امریکن اپنے بارے میں بالکل فکر نہ کریں اگر آپ کا ریکارڈ صاف ہے اور آپ اچھے شہری ہیں تو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔آپ اس ملک کے شہری ہیں اور ہمیشہ اس ملک میں رہیں گے۔امریکا آپ کا بھی ملک ہے تو آپ کو اس کی حفاظت کیلئے حکام سے تعاون کرنا ہو گا۔