بلاگ
07 مارچ ، 2017

پی ایس ایل نے کیا حاصل کیا؟

پی ایس ایل نے کیا حاصل کیا؟

 

معاشرے کی تبدیلی میں کھیل اور ثقافت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ تمام تعصّبات سے بالاتر ہو کے نظم و ضبط اور یکجہتی کا باعث بنتے ہیں۔ 2014ء میں جب نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا، اس وقت انتہاپسند اور دہشت گرد ذہنیت کو شکست دینے کے لئے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ اب وقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی اَزسرنو تعریف مرتب کی جائے۔

ہم اکثر سیاست کی منفی پیرائے میں تشریح کرتے ہیں حالانکہ اس میں کئی ایک مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں۔ اگر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پاکستان سوپر لیگ (پی ایس ایل)کا منعقدہ فائنل کروڑوں چہروں پر مُسکراہٹیں بکھیرنے کا باعث بنا ہے تو اس کا جائز کریڈٹ بھی دیا جانا چاہئے۔

وہ تمام غیرملکی کرکٹرز خصوصاً سرویوین رچرڈز اور پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی نے پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ان کا شکریہ اور جنہوں نے آنے سے گریز کیا، توقع ہے وہ آئندہ سال پاکستان آئیں گے۔ اب وہ انٹرنیشنل پلیئرز ایسوسی ایشن پر اپنا اثر و رُسوخ بروئے کار لا سکتے ہیں تا کہ پاکستان میں بھی بین الاقوامی کرکٹ ہو سکے جیسا کہ 2009ء سے قبل ہوا کرتی تھی۔

اسی طرح انٹرنیشنل بک فیئر (کتب میلہ) اور محافل موسیقی جیسے اَدبی اور ثقافتی تہوار منعقد کر کے عوام کو ایک دُوسرے کے قریب لایا جا سکتا ہے۔ صحت مند سرگرمیوں کے ذریعہ ہی ملک کا صحت مند تاثر اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ پی ایس ایل کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ناقدین فائنل کے لاہور میں انعقاد کو خطرہ ہی سمجھتے رہے جسے مول نہیں لیا جا سکتا۔ اس پر بے یقینی کے بادل منڈلاتے رہے۔

لاہور میں دہشت گردی کے واقعہ اور پُراسرار دھماکے کے بعد لگتا تھا شاید فائنل قذافی اسٹیڈیم میں نہ ہو سکے۔ اس چیلنج کو قبول کرنے اور فائنل کے شاندار انعقاد کا کریڈٹ ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت دونوں کو ہی جاتا ہے۔ آج دُنیا بھر میں شاید ہی کوئی کھیلوں کا مقابلہ ایسا ہو جہاں ہزاروں افراد کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور حفاظتی انتظامات نہ کئے جاتے ہوں۔

اتوار کو قذافی اسٹیڈیم نے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دیئے۔ جو 3 مارچ 2009ء کو لاہور ہی میں مہمان سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملے کے نتیجے میں بند ہوگئے تھے۔ 8 سال بعد جگہ وہی ہے لیکن بہتر انتظامی اقدامات اور سیکورٹی کے مؤثر انتظام میں غیرملکی کرکٹرز کا قذافی اسٹیڈیم پہنچنے پر فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔

ڈیرن سیمی، سرویوین رچرڈز اور دیگر غیرملکی کرکٹرز نے کروڑوں پاکستانیوں کے دِل جیت لئے۔ اتوار کو قذافی اسٹیڈیم میں کسی ایک شخصیت کی کمی محسوس ہوئی تو 1992ء کی ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے کپتان اور اب ملک کے ایک صفِ اوّل کے سیاستدان عمران خان کی رہی۔ ان کی تشویش بجا لیکن انہیں خطرہ مول لینا چاہئے تھا۔

دو سال قبل انہوں نے خود ایسا خطرہ مول لیا تھا جب ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں انہوں نے پشاور میں کرکٹ میچ منعقد کرا کر دہشت گردوں کو سخت پیغام دیا تھا۔ وہ سرویوین رچرڈز اور دیگر کے شانہ بشانہ ہوتے جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کو مات دینے کے لئے بڑی دُور سے پاکستان آئے۔ ان کے خدشات نے کیون پیٹرسن جیسے کرکٹرز کو بھی پاکستان سے دُور رکھا۔

پیٹرسن کی عدم شرکت سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو بڑا نقصان اُٹھانا پڑا۔ اتوار کو جو بات مشاہدے میں آئی وہ اس کا بنیادی جذبہ رہا۔ یہ پیغام دیا کہ 20 ہزار سیکورٹی اہلکاروں سمیت 70 ہزار انسانی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں۔ پی ایس ایل فائنل کے پاکستان میں کامیاب اور شاندار انعقاد کا یہ مطلب نہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ جیت لی گئی ہے لیکن اس ناپاک ذہنیت کے خلاف قوم کے عزم و حوصلے کا ضرور اظہار ہوتا ہے۔ یہ لڑائی محض میدانِ جنگ میں نہیں جیتی جا سکتی لیکن اپنی ثقافت، معاشرے  اور کھیلوں سے جڑی سیاست سے دور جدید کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔

پاکستان بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث دہشت گردی کا شکار ہوا۔ اس کے اپنے مسائل بھی ہیں، وہ منفی بیانیہ کو پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہا۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو تعلیم کے فروغ کے ذریعہ شکست دی جا سکتی ہے۔ غربت و افلاس دُور کرکے عوام کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہوگا۔ صحت، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے لئے سہولتیں بہم پہنچانا ہوں گی۔ یہ ذہنیت کے خلاف جنگ ہے جسے کھیلوں جیسی صحت مند سرگرمیوں کے ذریعہ ہی شکست دی جا سکتی ہے لہٰذا پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد کے پیچھے بھی سیاست کارفرما تھی اور یہ غلط بھی نہ تھی۔ اس میں خطرے کا عنصر ضرور موجود رہا لیکن ساتھ یہ سیکورٹی اداروں کی آزمائش بھی رہی جس پر وہ پورا اُترے۔

پی ایس ایل میں شریک پانچوں ٹیمیں مختلف لسانی شناخت کا امتزاج رہیں۔ گوکہ فائنل پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے درمیان کھیلا گیا لیکن ان کے حامی چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ ماضی میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد امریکا کی قیادت میں ممالک نے ماسکو اولمپک گیمز کا بائیکاٹ کر کے کھیلوں کو سیاست زدہ کیا۔ یہ ایک خراب فیصلہ تھا جس سے اولمپک نظریہ کی نفی ہوئی۔

آج بھارت نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کو منفی سیاسی ذہنیت کا یرغمال بنا دیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے پاک ہند کرکٹ اور ہاکی میچز دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے اَدوار میں تعلقات میں بہتری کے لئے کرکٹ ڈپلومیسی اختیار کی۔

وزیراعظم نوازشریف نے اس وقت پاکستانی ٹیم بھارت بھیجی جب وہاں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی حالانکہ بھارتی انتہاپسندوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

واجپائی نے پاکستانی ٹیم کے دورے کا خیرمقدم کیا اور کہا کھیلوں کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہئے۔ پاکستان کی جانب سے مثبت رویہ کے باوجود بھارت میں کھیل سیاست کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔

پی ایس ایل فائنل  کے لاہور میں انعقاد سے بین الاقوامی کھلاڑیوں اور ٹیموں کو پاکستان کی جانب راغب کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور ہم اپنے لوگوں کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کو شکست دینے کے قریب لے آئیں گے۔