07 مارچ ، 2017
لاہور میں اتوار کی شب پاکستان سپر لیگ کا فائنل بخیر وخوبی انجام پذیر ہوتے ہی قوم کی امیدیں ایک بار پھر آسمان پر جاپہنچی ہیں، عوام، خاص طور پر کرکٹ کے شائقین، یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ دنیا کی ہر ٹیم کو بہت جلد اپنے ملک میں کھیلتادیکھ سکیں گے، بلاشبہ اس پیش رفت سے یہ تاثرعام ہو ا ہے کہ دہشت گرد اب اپنی طاقت کھوتے جا رہے ہیں لیکن یہ تمام ترتاثرات اور خیالات کتنے معروضی ہیں، اس تجزئیے کے لیے یہاں چند حقائق کا تذکرہ ناگزیر ہے۔
فروری کے مہینے میں دہشت گردی کے واقعات پر فوری رد عمل کرتے ہوئے، مسلح افواج نے آپریشن ردُالفساد کا اعلان کیا اور پھر سیکیورٹی اداروں اور حکومتی مشینری نے باہمی تعاون سے کم از کم وہ صورت حال پیدا کردی جس کی وجہ سے اِس میچ کا انعقاد ممکن ہوسکا۔
مستقبل سے جڑے کسی بھی اچھے خیال پر کسی نہ کسی حد تک خوش فہمی کا گمان ہوسکتا ہے لیکن یہاں یہ کہنا شایدغلط نہ ہوکہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے پس منظر میں تجویز کردہ نیشنل ایکشن پلان کو آئینی تحفظ فراہم کرنا، اب اپنا اثر دکھا رہا ہے۔
میری نظر میں اس منصوبے کے تحت قبائلی علاقہ جات کا صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضمام، دہشت گردی کی روک تھا م کے لیے ایک تاریخی اور سب سے مؤثرپیش رفت ثابت ہوگا، یہ قبائلی علاقہ باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرّم، شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیر ستان نامی 7ایجنسیوں پر مشتمل ہے اور یہ پورا علاقہ خالصتاً قبائلی ہے، ان 7میں سے صرف اورکزئی وہ ایجنسی ہے جس کی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی۔
جنوبی وزیرستان ایجنسی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مغرب میں افغانستان اور جنوب مشرق میں پنجاب سے ملی ہوئی ہے، یہ پورا قبائلی علاقہ قیامِ پاکستان سے اب تک فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت چلتا رہا ہے، یہاں کبھی حکومت کی رِٹ رہی ہے نہ ہی یہاں وفا ق کے پولیٹیکل ایجنٹس کا انتظامی امور میں کوئی خاص عمل دخل رہا ہے! وفاق میں بیٹھے کسی حکمران نے ان علاقوں کی بہتری یا یہاں درکار انتظامی اصلاحات کے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ تجویز کرنے کی کوشش نہیں کی! شاید اس لیے کہ حکمرانوں میں سے کسی کا براہِ راست کوئی مفاد ان علاقوں سے وابستہ نہیں تھا، اُنہیں کیا خبر تھی کہ یہاں بسنے والے عوام کو مستقل نظر انداز کرکے وہ ایک ایسے مسئلے کو جنم دے رہے ہیں جواگلے کئی عشروں تک ملک میں تشدد کے بدترین واقعات کا سبب بن جائے گا، صرف یہی نہیں بلکہ ان حالات کے سبب ملک سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی بحران سے بھی مستقل دو چار رہے گا۔
دہشت گردی ایک طرف خود ایک بڑا مسئلہ ہے تو دوسری جانب یہ ملک کو درپیش بہت سے مسائل کا سبب بھی ہے! لہٰذا ماضی میں ملک کی ہر منتخب اور غیر منتخب حکومت اس معاملے کو صرف ان ہی دو زاویوں سے دیکھتی آرہی ہیں، المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے والی تمام حکومتیں اُن پیچیدہ معاملات کو نظر انداز کرتی رہیں جو اِس مسئلے کی شروعات اور پھر مستقل بڑھاوے کا سبب بنتے رہے ہیں، اس لیے، عام طور پر فاٹا کہلائے جانے والے ان علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز اب سب سے اہم معاملہ ہے۔
ملک میں دہشت گردی کا اصل تانا بانا بلاشبہ سابق سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان کے کردارسے جڑا ہے، بگاڑ کی اس کہانی میں بہت سے کردار اور واقعا ت کار فرما رہے ہیں، سرد جنگ کے خاتمے سے کوئی ایک دہائی پہلے سوویت یونین کی افغانستان میں عسکری مداخلت، ا ن حالات کا ابتدائی سبب ہے، اس صورت حال نے خطے کے تمام ملکوں کے استحکام کو خطرے میں ڈال دیا، پھر ستم یہ کہ روسیوں کو افغانستان میں کچل کر ویت نام میں اپنی عبرت ناک شکست کا بدلہ لینے کا امریکی عزم، اس بھڑکتی ہوئی آگ کے لیے بہترین ایندھن ثابت ہوا لیکن پاکستان کے نقطہ نظر سے مسائل کی اصل داستان اس وقت شروع ہوتی ہے جب ملک کے سربراہ جنرل ضیاء الحق امریکی عزم میں شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے بعد کئی برسوں تک، اُن کی حکومت کی تمام تر توجہ ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے بجائے افغان جنگ کی نگرانی اوراس میں ہونے والی پیش رفت پر لگی رہتی ہے، نتیجتاً جوں جوں وقت گزرتا گیا ملک کا ریاستی نظام کمزور سے کمزور ترہوتا گیا۔
پاکستان کے ارباب اختیار کونہ جانے یہ علم تھا یا نہیں کہ سوویت یونین کے خلاف شروع ہونے والی یہ جنگ صرف امریکی مفادات کی جنگ تھی، سرمایہ دارانہ نظام کی حمایتی دنیا کا علمبردار امریکا، کمیونزم کے پھیلاؤ کو ہر صورت روکنا چاہتا تھا، سوویت یونین کی جانب سے عالمی سطح پر کمیونزم کے پھیلاؤ کی کوششیں اور اِن کوششوں کے خلاف امریکا کی مستقل مزاحمت، سرد جنگ کے تمام تر فلسفے کی اصل بنیاد ہیں لیکن افغانستان میں روسیوں کے خلاف یہ معرکہ دو حوالوں سے بہت اہم ہے، ایک تویہ کہ افغانستان کی سرزمین پر یہ طویل معرکہ سرد جنگ کے 44 سالہ دور کے خاتمے پر مکمل ہوا، دوسرا یہ کہ افغانستان میں روسیوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت امریکا کے لیے نہ صرف غیرمعمولی تھی، بلکہ یہ حقیقت بعد میں اس کی کامیابی کی ضمانت بھی ثابت ہوئی۔
لیکن کیا یہ سب کچھ اتنا آسان تھا جتنا کہ اب دکھائی دیتا ہے؟ نہیں، امریکا کی مدد کرنے سے لے کر افغانستان میں گھس کر روسیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے تک، کسی بھی مشن کا کامیاب ہونا لگ بھگ ناممکن ہوتا، اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بین الاقوامی سرحد ہوتی، روسی افواج سے لڑنے کے لیے قبائلی علاقوں میں افغان جنگجوؤں کی عسکری تربیت کی گئی، کیوں کہ دیگر علاقوں میں کسی باقاعدہ آئین کا وجود، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے اداروں کی موجودگی، کسی بھی وقت اور کسی بھی سطح پر امریکی عزائم کے آڑے آسکتی تھی۔
تقریباً ایک عشرے تک یہ علاقہ تربیتی مرکز کے ساتھ ساتھ، امریکیوں اور ان کے وفادار جنگجوؤں کے لیے ایک انتہائی محفوظ پناہ گاہ اورسیاسی و نظریاتی درس گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا، اس علاقے میں زخمیوں کے لیے ہر قسم کی طبّی سہولت موجود تھی، مجھے لڑکپن کا وہ دور یاد ہے جب شہر کراچی کے گلی گوچوں میں اکثر ’افغان جہاد‘ کہلائی جانے والی اس جنگ کے قصے بڑھا چڑھا کر سنائے جاتے تھے، کچھ لوگ تو اس طرح بات کرتے تھے گویا وہ اس ’جہاد‘ میں حصہ لے چکے ہوں، مثال کے طور پر اِن قبائلی علاقوں میں ’مجاہدین ‘ کی تربیت، کافر روسی فوجیوں کی پسپائی، جلال آباد کی فتح اور امریکیوں کے خلوص سے جڑے یہ قصے لہک لہک کر سنائے جاتے تھے۔
البتہ کچھ باتیں سو فیصد صحیح لگتی تھیں، مثلاً قبائلی علاقوں اور افغانستان کے درمیان آزادانہ آمد و رفت امریکی اسلحے سے لیس جنگجوؤں کے لیے گویا اپنے محلے میں چہل قدمی جیسی تھی، اس پورے عرصے میں امریکی کمانڈرز اور ان کے تیار کردہ جنگجو، ان قبائلی علاقوں کے مالک تھے، ان کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا تھا، کسی مقامی گروہ، جماعت یا فرد میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ان غیر ملکیوں کے قریب بھی پھٹک سکے۔
شاید میرے اگلے چند الفاظ سے کسی حد تک تنگ نظری کا گماں ہو لیکن کیا کوئی انکارکرسکتا ہے کہ اس طویل جنگ میں جہاں پاکستان نے بہت کچھ کھودیا اور بہت کچھ لٹا دیا، وہیں افغان مہاجرین کی آمد نے ان علاقوں میں پہلے سے موجود لاقانونیت کو اَنارکی میں بدل دیا، افغانستان کے کن علاقوں سے کن وجوہات کی بنیاد پر کتنے لوگ اور کب ہجرت کرکے ان علاقوں میں آکر بستے رہے، اِن اعداد و شمار کو بر وقت جمع کرنا قطعاً ضروری نہیں سمجھا گیا، آج بھی ایسے ان گنت لوگ ہمارے آس پاس موجود ہیں جو افغان جنگ سے متعلق قصے اور اس دور سے جڑے واقعات سے بخوبی واقف ہیں، ان کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ ضیاء حکومت اپنا زیادہ تر وقت اورتوانائی، افغان جنگ میں امریکا کی وفاداری نبھانے میں ضائع کر رہی تھی، لہٰذا اس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کا پاکستان چلے آنا کوئی اہم بات نہیں تھی، دوسری جانب اس عاقبت نااندیش حکومت کا کوئی بااثر شخص اتنا اہل تھا ہی نہیں کہ وہ اس بڑی ہجرت میں کسی طور حساسیت کا کوئی عنصر تلاش کرسکتا، یہ سب کچھ آخر کار قوم کو ہی بھگتنا تھا۔
یہ 1989ءکی بات ہے جب کمیونسٹ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے درمیان قائم مشہور 'دیوارِ برلن کو دونوں جانب کے عوام نے اپنے ہاتھوں سے گرا ڈالا، یہ واقعہ دنیا کو 44 سالوں تک نا قابل ذکر اذیت پہنچانے والی سرد جنگ کے علامتی اختتام کا اعلان تھا، تھوڑے ہی عرصے میں عالمی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور سوویت افواج افغانستان اور مشرقی یورپ سے واپس ہو نا شروع ہوگئیں، اس دوران دنیا نے بہت کچھ ہوتے دیکھا، سوویت یونین بکھر گیا اور دنیا جنگ کے خطرات سے باہر آ گئی۔
بہت سے دشمن دوست بن گئے لیکن کون جانتا تھا کہ پاکستان کو اب ایک بھیانک دور سے گزرنا ہے، سرد جنگ کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن افغان جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد پاکستان نے کشمیر کی آزادی کے لیے کمر باندھ لی، ضیاء حکومت کے خاتمے کے بعد بے نظیر بھٹو کی پہلی جمہوری حکومت کشمیر کی آزادی اور وادی میں شروع ہونے والے ’جہاد‘ کی بھرپور حمایت کرتی رہی، افغان جنگ کے بعد دنیا میں بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کے تصورات میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس کے باجود پاکستان کے عوام کو افغانستان میں امریکا کا ساتھ دینے، کشمیر کی آزادی کی حمایت کرنے اور دیگر خطوں کے مسلمانوں کی خاطر آواز یا تلوار اٹھانے کے بدلے کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا۔
اس کے بر عکس امریکا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے پاکستان پر بالواسطہ اور بلا واسطہ دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے اور دہشت گردوں کے تربیتی مراکز چلانے کا الزا م لگایا، کیا ان انگریزی بولنے والی قوموں کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ اس نے اپنے ہی قائم کردہ مراکز سے تربیت یافتہ افراد پر انگلی اٹھانا شروع کردی؟ میرے خیال میں ایسا بالکل نہیں ہے! ایک انتہائی طاقتور ملک ہونے کی وجہ سے امریکا اس بات کا پابند نہیں کہ وہ اپنے 'دوستوں کو سینے سے لگائے رکھ،۔ حد تو یہ ہے کہ روسیوں کے خلاف برسوں گھمسان کی لڑائیاں لڑنے کے باوجود جب اسلامی ریاستیں سوویت یونین سے الگ ہوئیں تو ان میں سے کسی ریاست نے بھی پاکستان سے آج تک مثالی تعلقات قائم نہیں کیے، ملک کے جن باسیوں نے برسوں اٹھتے بیٹھتے کشمیر کی آزادی کے خواب دیکھے تھے، وہ آج بھی کسی خوش خبری کے منتظر ہیں، کارگل کے معرکے سے متعلق بہت سے ذہن آج بھی تذبذب کا شکارہیں اور آج بھی اس جنگ سے متعلق متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔
الغرض پاکستانی عوام اپنی تمام تر بین الاقوامی خدمات کے باجود آج بے یارو مددگارہیں، دوسری طرف یہ قبائلی علاقے ان دہشت گردوں کی مستقل اور محفوظ ترین پناہ گاہ بن گئے ہیں جو معصوم لوگوں کو خود کش حملوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں، اِس دوران کیے گئے آپریشنزمیں بہت سے دہشت گردوں کو مار دیا گیا جبکہ کئی فرار ہوگئے، حالات تو یقیناًبہتر ہوئے لیکن فرار ہونے والے ان گنت دہشت گردوں نے ان قبائلی علاقوں کے خاص اور کٹھن خدوخال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بارپھر یہاں پناہ لے لی،اگلی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل کروانے کے لیے کرۂ ارض پر اس سے زیادہ محفوظ کوئی اور مقام نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ ماہ چاروں صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات، ان بہیمانہ کارروائیوں کا واضح ثبوت ہیں، اس صورتحال سے ایک بار پھرملک چلانے والے تمام اداروں پر یہ تو واضح ہوگیا کہ مسئلے کا مستقل حل صرف عسکری نہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان علاقوں میں بتدریج اصلاحات متعارف کرانے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے سلسلے میں فیصلہ ساز ی تو ہوئی لیکن پھرمعاملہ کچھ کھٹائی میں پڑتا ہوا محسوس ہونے لگا، اگرچہ حکومت نے اِن اصلاحات کا ایک باقاعدہ پیکیج بھی تیار کر لیا لیکن بات آگے بڑھتی ہوئی محسوس نہیں ہوئی،شاید حکومت اس معاملے میں تمام اداروں کی رضامندی کا انتظار کررہی تھی یا فوجی آپریشنز پر ضرور ت سے زیاد ہ انحصار کرلیا گیا تھا۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے وقت آپریشن ضربِ عضب کے مستقبل سے متعلق خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا، حالانکہ اُس وقت بھی سب سے بڑا سوال یہی ہونا چاہئے تھا کہ آیا نئی فوجی قیادت قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے نفاذ میں حکومت کی مؤثر معاونت کرنے پر آمادہ ہوگی یا نہیں؟ لیکن قوم کو اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ ماہ اپنے جنوبی وزیر ستان کے دورے میں واضح طور پر ان اصلاحات کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔
ادھر اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس اور مضامین سے یہ بات واضح ہوچلی تھی کہ اِن قبائلی علاقوں کے باسیوں کی اکثریت ان اصلاحات کے حق میں ہے، جنرل باجوہ نے یقیناً اپنے اس دورے میں جنوبی وزیرستان کے عوام کی خواہشات کے احترام میں ان تجاویز پر رضامندی کا اظہار کیا تھا، جنوبی وزیرستا ن میں ہونے والی اس پیش رفت سے یہ بہت واضح ہوگیا ہے کہ اب دیگر اہم معاملات کی طرح ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ قبائلی علاقہ جات میں تبدیلیوں کے معاملات میں بھی نا صرف ایک صفحے پر ہیں بلکہ ہمہ وقت ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کے لیے تیار ہیں ۔
اس وضاحت کے بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وہ تاریخی فیصلہ کیا گیا جواگر قیام پاکستان کے وقت کرلیا جاتا تو شاید یہ ملک دہشت گردی سمیت بہت سے مسائل سے دوچار نہ ہوا ہوتا، کابینہ نے ان ساتوں ایجنسیوں میں قبائلی نظام کو ختم کرکے یہاں بتدریج اصلاحات متعارف کرانے اور ان علاقوں کو آئین پاکستان کی اکیسویں ترمیم کے تحت، صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔
ان علاقوں کے صوبے میں انضمام کا عمل لگ بھگ 5سال میں مکمل ہوجائے گا، یہ یقیناً ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جو حکومت اورافواج پاکستان کی قیادت کے ایک دوسرے سے تعاو ن کے بغیر کسی طور ممکن نہیں تھی لیکن اصلاحات سے متعلق یہ پیش رفت کتنی اہم ہے، انضمام کے اس عمل کے مکمل ہوتے ہوتے ہی پوری قوم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی۔
لیکن بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی علاقائی انضمام کی اس تاریخی پیش رفت کے بعد پاک افغان سرحد کی قانونی حیثیت اوراس کے ارد گرد ہونے والی سرگرمیوں پر کڑی نظر، مستقبل کے اہم ترین موضوعات ہوں گے، لیکن اس بار آدھی صدی گزر جانے کا انتظار زیادہ بھیانک ثابت ہوسکتا ہے، یاد رہے کہ پچھلے ایک ہزارسال سے روایت ہے کہ حملہ آور شمال سے جنوب کی طرف سفر کرتا ہے۔
سینئر صحافی نصرت امین ’جیو‘ اور ’جنگ‘ گروپ سے وابستہ ہیں۔