20 مارچ ، 2017
ملک بھر میں جہاں مردم شماری کے مراحل تکمیل کی جانب رواں دواں ہیں، وہیں شکایات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔شکوک و شبہات بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔کئی علاقوں سے خانہ شماری نہ ہونے کی شکایات موصول ہورہی ہیں تو کہیں عملہ پہنچ کر بھی کچھ نہیں کررہا ہے ۔
ادھر خانہ و مردم شماری پر سندھ کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے مردم شماری کے موجودہ طریقہ کار کو چیلنج کردیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر اور مولا بخش چانڈیو نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ مردم شماری غیر منصفانہ ہورہی ہے۔مردم شماری کے عمل میں آئین کے آرٹیکل 2, 4 اور 19 کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ان کا کہنا ہےکہ مردم شماری کے عمل میں سندھ میں رہائش پذیر غیر ملکیوں کو بھی سندھ کے باسیوں کے طور پر گنا جارہا ہے جو غلط ہے۔مردم شماری کا عمل غیر شفاف اور جانبدارانہ ہے۔
پی پی کا موقف ہے کہ مردم شماری کے لئے غیر جانبدار عملہ تعینات کیا جائےاوراس عمل میں عوامی شرکت یقینی بنائی جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مردم شماری میں صرف پاکستانی اور سندھ کے اصل رہائشیوں کو گنا جائے۔۔خانہ شماری کے عمل میں رہ جانے والے گھروں کی نمبرینگ کو یقینی بنایا جائے۔۔عوام کو معلومات کے حصول تک رسائی ممکن بنائی جائے، غلط اندراج کی صورت میں دوبارہ معلومات فراہم کرنے کی اجازت ہونی چائیے۔۔دہرے اورتیسری رجسٹریشن کے عمل کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں۔
دوسری جانب سندھ کے شہری علاقوں میں اکثریتی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھی شہری علاقوں میں خانہ و مردم شماری کی شفافیت پر سوال اٹھانا شروع کردئیے ہیں۔ان کا کہنا ہےکہ سندھ کے شہری علاقوں میں آبادی میں اضافہ ہوا ہے ۔
فاروق ستار کہتے ہیں شہری علاقوں کی آبادی بڑھ چکی ہے لیکن اسے کم دکھانے کی کوشش جاری ہے ۔کراچی میں کئی علاقوں میں اب تک خانہ و مردم شماری کےلئے ٹیمیں نہیں پہنچی ہیں جبکہ پینسل سے مردم شماری پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
اس سے قبل عام آدمی پارٹی کے قائم مقام چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرچکے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مردم شماری کرانے میں سنجیدہ نہیں ۔مردم شماری میں رکاوٹیں ڈالنے کا عمل جاری ہے۔
بعض سیاسی جماعتیں ،خان اور سردار مردم شماری سے خوفزدہ ہیں ۔ وفاقی حکومت کو آئین کے مطابق مردم شماری مقررہ وقت میں مکمل کرانے کا پابند کیا جائے ۔مردم شماری کرانے کا اختیار صرف وافق اور مشترکہ مفادات کونسل کی ذمہ داری ہے۔
صوبائی حکومتوں کو محکمہ شماریات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ نہ کرنے کا پابند بھی بنایا جائے۔مردم شماری میں صرف پاکستانی شہری ہی نہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو اس وقت ملک میں موجود ہوں انہیں تصدیق کے بعد مردم شماری میں شامل کیا جائے۔
حالات جو بھی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آئین کے تحت مردم و خانہ شماری ہردس سال بعد لازمی ہے ۔ملک میں دانستہ یا نادانستہ غیرضروری تاخیر سے 19 سال بعد یہ آئینی تقاضہ پورا کیا جارہا ہے ۔پاک فوج اس عمل میں شریک ہے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خانہ و مردم شماری کو شفاف بنانے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اسے بروقت مکمل کرلے۔