خصوصی رپورٹس
03 اپریل ، 2017

بیگم گلی کی عاصمہ بھابھی

بیگم گلی کی عاصمہ بھابھی

میں عاصمہ ہوں ، ایک ماں ، ایک بیوی اور ایک خاتون۔ میرا تعارف! بہت سیدھا ، بہت عام سا ، مجھ میں کوئی خاص بات نہیں سوائے اس بات کہ میں بھی ہزاروں ماؤں کی طرح، اپنے خاندان پر فدا ہو گئی ۔ اور اس فدائی جذبے نے ہی آج میرے بڑے بیٹے کو کراچی یونیورسٹی پہنچایا او ر وہ ایم کام کر رہا ہے۔ دوسرے بھی اسی کے پیچھے پیچھے ہیں ۔اگلے سال چھوٹا بھی کالج جانے لگے گا ۔ تین بیٹے اور تینوں ہی تعلیم یافتہ ہیں۔

ہمارے جیسے گھرانوں میں جہاں سفید پوش کابھرم تو چھوڑئیں، صبح سے شام کرنا مشکل نظر آتا ہو ۔اور جب ان گھر انوں کے بچے اپنی محنت سے پڑھ جائیںتو یہ ہم جیسے والدین کیلے نعمت خداوند ی سے کم نہیں ۔اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک کیسے ہوتی ہے؟ ہم سے پوچھیں ۔ ہاں! ہم میاں بیوی نے بھی اس ٹھیلے کو ذاتی کاروبار بنانے کے لئے بہت ہاتھ پیر مارے ہیں تب کہیں جا کرہمارے ٹھیلے سے بہت سے لوگ گھر کے کھانے کا سا مزہ لے پاتے ہیں ۔ہمارے کھانے کی خاصیت یہ ہی ذائقہ ہے۔ پہلے نہیں لیکن اب چند سالوں سے میں بنفس نفیس صبح سے شام تک ٹھیلے پر کھڑی رہتی ہو ں۔

ہمارے گھر کی بھی عام کہانی ہے۔ میاں جو پہلے ایک ہوٹل پر باورچی تھے، نکالے گئے ،سمجھیں گھر میں فاقے پڑنے کی نوبت آگئی ۔اسی ادھیڑ بن میں یہ ٹھیلا ہمارا ذاتی کاروبار بنا ۔ اس مشہور بیگم گلی میں ایک عورت کا ٹھیلے پر کھڑے ہو کر دال چاول بیچنا آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن مشکل فیصلے اس وقت لازمی اور آسان بن جاتے ہیں جب روٹی روزی کے لالوں کے ساتھ بھی ، آپ بچوںکو پڑھانا چاہتے ہوں ۔ اس صورت حال میں والدین دال چاول کا ٹھیلا ہی کیاجو بس میں پڑتا ہے نکل پڑتے ہیں، آخر اولاد کا معاملہ ہوتاہے !

چار کلو دال چاول سے شروع ہونے والا کام اب آٹھ کلو تک جا پہنچا ہے۔ اور اب اللہ کے فضل سے چنا پلاؤ بھی اپنے ٹھیلہ مینو میں شامل کر چکے ہیں ۔ یہ سب کوئی آسان کام نہیں۔ لوگوں کو اس سادے سے کھانے کی طرف مائل کرنے لئے جہاںہمیں قیمت تیس روپے رکھنی پڑتی ہے وہیں مزید خاص کرنے کے لیے تلی مرچیں اور سادہ سی سلاد بھی دینی پڑتی ہے تب کہیں جا کر یہ دفتروں میں بیٹھے لوگ ہمارے ٹھیلے کے کھانے کو بھی کھانا سمجھتے ہیں اور ہمارے بڑے بڑے دیگچے ختم ہونے پر آتے ہیں ۔

ہاں ! آج بچوں کو تشویش ہوتی ہے کے میں کم از کم اب انکے باپ کے ساتھ ٹھیلے پر نہیں کھڑی ہوں لیکن جب بچے یونیورسٹی ، کالج کے بعد اسٹور پر بیٹھ کر اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرکے اپنی ذمہ داریاں محسوس کر رہے ہوں ، تو میں کیسے تھک کر بیٹھ سکتی ہوں ۔ مجھے تو کھڑے ہونا ہی ہے ۔ اپنے لئے بھی اور اپنے خاندان کے لئے بھی ۔

بہت سوں کو اب ہمارا مستقبل بہتر نظرآنے لگا ہے لیکن اکثر کو ہی اس کے پیچھے انتھک محنت نظر نا آئے ہم میاں بیوی نے ہی نہیں بلکہ ہمارے بچوں نے بھی ہر قدم پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ بچوں نے ہمارے اس طرح کام کرنے کو عار نہیں سمجھا بلکہ میری اس طرح ہمت اور محنت کو اپنے اوپر احسان سمجھا ۔ ہم نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ۔

جب پوری گلی میں ہی لوگ مجھے بھابھی بھابھی کہہ کر پکارتے ہیں تو میرا یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اس طرح مردوں کے درمیان کام کرنا کوئی برائی نہیں ۔ اطراف کی سب دکانوں کے لوگ عزت دیتے ہیں ۔ اس لئے کوئی عورت یا مرد اس وقت ہی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے جب وہ نکما ، ناامید اور محنت سے عاری ہو ۔ بس محنت کریں جو خوشی بھی دیتی ہے اور اطمینان بھی ۔

مزید خبریں :