بلاگ
21 اپریل ، 2017

مقدمے کی واپسی

مقدمے کی واپسی

کچھ نیا لکھنے سے قبل میں اس سال یکم جنوری کوان ہی صفحات پر’سال 2016: گر یاد رہےـ‘ کے عنوان سے شائع کردہ اپنے مضمون کی یہ چند سطریں پیش کررہا ہوں، ’’اس معاملے کے سپریم کورٹ تک پہنچنے سے کچھ دن قبل میرا ماہر اقتصادیات اکبر زیدی سے ملاقات کا اتفاق ہوا! ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی شور کرلے یا زور لگا لے، پاکستان کا کوئی ادارہ ایسا نہیں کہ ان شخصیات کا احتساب کر سکے‘‘۔

اکبر زیدی کے خیال میں ’’فی الحال دستیاب اورآئندہ ممکنہ طور پر حاصل ہونے والے شواہد کی بنیاد پر چند شخصیات کو کچھ دن کے لیے عدالت میں گھسیٹا جا سکتا ہے لیکن ان الزامات اورشواہد کی بنیاد پرسزا نہیں دلوائی جاسکتی‘‘۔

پانامالیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اوپر دہرائی گئی بات کو اب تک صحیح ثابت کررہا ہے، خاص طورپر تحقیقات کے معاملے میں عدلیہ کی حدود فیصلےمیں سب سے نمایاں طور پردکھائی دینے والا عنصر ہے، المیہ یہ ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد نیوز میڈیا پرپیش کئے جانے والے تمام تبصرے اور تجزیات نواز شریف اوران کے مخالفین کے درمیان تنازعات کے مختلف پہلوؤں تک ہی محدود رہے، چند لمحوں کے لیے فیصلے کو قانونی تناظرمیں ضروردیکھا گیا لیکن سیاسی نکتہ پھر بھی حاوی رہا۔

پانچ میں سے دو ججز کا نواز شریف کو نا اہل قراردینا اور بنچ کے پانچوں ججز میں سے کسی ایک کی جانب سے بھی 'کلین چٹ، نہ ملنا یقیناً نوازشریف کے سیاسی مستقبل اور ساکھ پراب ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، لیکن ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عدلیہ کے اعلیٰ ترین فورم کے تمام ممبران متفقہ طور پر ایک شخص کوکسی الزام سے بری نہ کرنے کے باوجود اسے سزا دے سکے اور نہ ہی نا اہل قرار دے سکے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن کے قیام کا اعلان دراصل اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ ہمارے مروجہ نظام عدل میں غیر معیاری تحقیقات اور استغاثہ کی نا اہلیت سب سے گمبھیر مسئلہ ہے۔

ٹی وی ٹاک شوز میں کیے جانے والے تمام تبصرے اور تجزیے اس حقیقت کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ مقدمے میں تفتیش اور تحقیق کے عمل سے گزرے بغیر کسی کو اہل یا نااہل قرار دیے جانے کی توقعات کیسے کی جارہی تھیں؟ مجھے اس بات پر قطعی حیرت نہیں کہ ایسی غیر معقول توقع کرنے والوں میں عمران خان، سراج الحق، شیخ رشید اور خود نواز شریف سمیت عوام کی اکثریت شامل ہے، مجھے یہ تعجب بھی نہیں کہ بڑے بڑے تبصرہ نگاران توقعات پرایک بار بھی حیرت کا اظہار کرتے نہیں دیکھے گئے، سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ آخر کار عدلیہ کو مقدمے میں تحقیقاتی عنصر کی کمی کو بھانپ کر جے آئی ٹی کے قیام کا فیصلہ ہی کرنا پڑا، چند لوگوں کو اس بات کا ضرورعلم ہوگا کہ یہ فیصلہ قانون کے تحت ناگزیر تھا۔

دنیا کی جمہوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ جب عدلیہ یا ججز نے خود تحقیقات کی ہوں، کسی جرم پر مقدمہ سازی اور کسی تفتیشی و تحقیقی عمل سے گزرے بغیر سپریم کورٹ یا کوئی دوسری عدالت کسی کی ذاتی خواہش کے تحت یا کسی کی آسانی کے لیے شارٹ کٹ فیصلے نہ کرتی ہیں اور نہ ہی یہ ان کا کام ہے، کسی جرم کے بعد یا کسی جرم کے انکشاف کے بعد پہلا مرحلہ تفتیش اور تحقیقات کا ہوتا ہے، یہ کام پولیس یا جرم کی نوعیت کے اعتبار سے متعلقہ تحقیقاتی اداروں کا ہوتا ہے، مقدمہ سازی کے بعد معاملہ عدالت میں لایا جاتا ہے، میں کوئی وکیل یا قانون دان نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ عام حالات میں کوئی بھی معاملہ اعلیٰ عدالتوں تک ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے بعد پہنچتا ہے، اس خاص معاملے میں اگر نیب کو ناکام تصور کیا جاتا ہے تو بھی کسی متبادل ادارے کی تحقیقات کے بغیر معاملے کو عدلیہ پر چھوڑدینا انصاف کے عمل میں شارٹ کٹ لینے کے مترادف ہے۔

البتہ کچھ خاص معاملات میں عدالتی کمیشن اور ٹریبونل ضرور قائم کیے جاتے ہیں، لیکن ایسے فورم کی جانب سے کی گئی سفارشات پر بھی پہلے مقدمہ چلایا جاتا ہے، مثال کے طور پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ٹریبونل کی سفارشات کے بعد بھی ایک ماتحت عدالت میں مقدمہ چلایا گیا، لہٰذا انصاف کے عمل کے دوران بیان کردہ طریقہ کار کے علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ عدل کی جدید اور جمہوری روایات کے سوا سب کچھ کہلایا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے قانون کے تقاضے پورے کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ کم از کم فیصلے میں درج ہدایات کے تحت اب تمام الزامات پر باقاعدہ تحقیق ہوسکے گی اور ساتھ ہی اس پوری کارروائی میں مہینوں فارغ بیٹھے تفتیشی اور تحقیقاتی ماہرین اور ادارے پہلی بار حرکت میں آئیں گے، اب اس مرحلے میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ کیا جے آئی ٹی کے تمام ممبران موجودہ حکومت کے زیر اثر رہے بغیر اس معاملے پر آزادانہ تحقیقات کرسکیں گے؟

یہاں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ممبران کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو غیر جانبدار رہ سکتے ہیں،لیکن کیا نیب، ایف آئی اے اور جے آئی ٹی میں شامل دیگر اداروں کے ممبران سے غیر جانبدار رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ جبکہ اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے ان اداروں کی تفتیش پر سوالات اٹھاتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا، فیصلہ ماننے کے پیشگی وعدے کے باوجود یہ سوال اب عمران خان کے لیے بھی اہم ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان سمیت حزب اختلاف کی کئی اہم جماعتیں جے آئی ٹی کی تشکیل اور وزیراعظم کے زیر اثر کام کرنے پر اعتراض کر رہی ہیں۔

میڈیا کے ایک حلقے نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگرجج صاحبان نواز شریف کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں تو متفقہ طور پر انہیں نا اہل قرار کیوں نہیں دیا؟ اس بات کا بہترین جواب خود کپتان سے بہتر اور کوئی نہیں دے سکتا کہ بیٹسمین کے آؤٹ ہوجانے کے باوجود ایمپائر کو اگر تھوڑا بہت شک بھی ہو تو اس شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے؟ کھیل کے میدان میں وہ بحیثیت بولر اس المیے کو بہت سالوں بھگت چکے ہیں بالکل اسی طرح وکلاء جانتے ہیں کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہوتا ہے۔

یہ حقیقت قانون کی تاریخ میں کسی کہاوت کی طرح رائج رہی ہے کہ دنیا کا ہر ملزم قانون کا چہیتا ہوا کرتا ہے، عرصہ دراز سے دنیا کے ہر خطے میں ادیب، شعرا، فلمساز، صحافی اور ناول نگار اس مقبول نظریے کا اپنے اپنے انداز میں اظہار کرتے رہے ہیں، جرم ثابت ہونے تک معصوم سمجھے جانے کا یہ بنیادی فلسفہ جدید مغربی دنیا میں کرمنل جسٹس سسٹم کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب ہے، جرم ثابت کرنے کے لیے تحقیقات کے بنیادی عمل سے گزرنا لازمی ہے، ہمارے ہاں قانونی شعورمیں فقدان کا حال یہ ہے کہ الزام لگانے والا با آواز بلند کہتا ہے کہ اس کا کام صرف الزام لگانا ہے اور اگر کوئی معصوم ہے تو وہ عدالت جاکر خود کو معصوم ثابت کرے،یعنی ہمارے ہاں روایات اور شعور، مہذب دنیا میں رائج اصولوں کے بالکل برعکس ہیں، حالاں کہ کچھ عرصے قبل ہی مفتی اعظم جناب تقی عثمانی نے واضح کیا تھا کہ ’’بارِ ثبوت الزام لگانے والے (استغاثہ) پرعائد ہوتا ہے‘‘۔

عدل کے جدید اور جمہوری نظام کے تحت مقدموں کی عدالتی فیصلہ سازی سے پہلے باقاعدہ تحقیقات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، یہ تحقیقات غیررسمی و رسمی پوچھ گچھ سے شروع ہوکر باقاعدہ تفتیشی عمل سے گزرتی ہے، اس میں ناقابل تردید منقولہ اور غیر منقولہ ثبوت، چشم دید گواہ اور فورنزک شواہد شامل ہوسکتے ہیں،اس کے بعد مقدمہ سازی کا مرحلہ آتا ہےجس کی تکمیل پر مقدمہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، تحقیقات میں سامنے آنے والی تمام تر شہادتوں کی بنیاد پرمتعلقہ جرم کوعدالت میں ثابت کرنے کا تمام تر فریضہ استغاثہ پرعائد ہوتا ہے، بدقسمتی سے ملک کی 70 سالہ تاریخ میں استغاثہ مقدمے میں عدم دلچسپی اور 'تاریخ پہ تاریخ مانگنے کی مثال بنا رہا ہے، گزشتہ 7دہائیاں گواہ ہیں کہ بدنام زمانہ مجرمان، جانے مانے جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد صرف استغاثہ کی ناقص کارکردگی کے سبب آزاد گھوم پھررہے ہیں۔

دوسری جانب تحقیقاتی اداروں کے اکثر اہلکار نہ اپنے اختیارات اور حدود سے آگاہ ہوتے ہیں اور نہ اپنے کام میں مہارت اور دلچسپی رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ڈیوٹی کے دوران دیگر معاملات میں زیادہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ دنوں اسلام آباد ایئرپورٹ پردوخواتین مسافروں کی خاتون ایف آئی اے اہلکار کے بہیمانہ تشدد کے باعث اس کےادارے کی ساکھ داؤ پہ لگی ہے جو نہ صرف ایک تازہ مثال بلکہ ادارے کے نام پر کبھی نہ مٹنے والا سیاہ دھبہ ہے۔

ہر غیر معمولی تقدیر کے پیچھے یقیناً کوئی جرم چھپا ہوتا ہے، لیکن اس جرم کو ثابت نہ کیا جائے تو خمیازہ پوری قوم کومدتوں بھگتنا پڑتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ جرم کو صحیح وقت پر صحیح جگہ ثابت کردیا جائے، اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ الزام لگاتے وقت شور کرنے سے زیادہ شواہد اکٹھا کرنے پر توجہ دی جائے، کیوں کہ بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہوتا ہے اور عدل کے جدید قوانین اور منصفین اس نقطے پر متفق ہیں۔

مضمون کے مصنف نصرت امین سینئر صحافی ہیں اور جیو/ جنگ گروپ سے وابستہ ہیں۔
ای میل [email protected]