23 اپریل ، 2017
پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ کون ہو گا ؟ اس سوال کا جواب ہر شخص پوچھ رہا ہے کیونکہ یہ اہم ترین ٹیم اس منفرد کیس میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں سے ان کی بیرون ملک دولت کی ترسیل کے حقائق معلوم کرنے لیے کڑے سوال کرئے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تعینات کیے جانے کے لیے موزوں ترین افسر ہیں، تاہم ان سمیت ایف آئی اے کے کسی بھی ایڈ یشنل ڈائریکٹر جنرل کے پاس سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں وائٹ کالر کرائمز کی تحقیقات کا تجربہ نہیں ہے ۔
ذمہ دارذرائع نے بتایا کہ بظاہر اس معاملے پر حکومت کے پاس کوئی متبادل آپشن موجود نہیں، یہ محض اتفاق ہے کہ اس وقت ایف آئی اے میں دو کل وقتی اور ایک اضافی چارج کے حامل ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل تعینات ہیں ، کل وقتی ایف آئی اے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرلز میں گریڈ20 کے افسران جناب واجد ضیا اور کیپٹن (ر) احمد لطیف ہیں، دونوں افسران 1988 ءمیں پولیس سروس میں اکٹھے شامل ہوئے ، اضافی چارج پر گریڈ 19 کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات ڈاکٹر شفیق الرحمن ہیں ۔
ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے سب سے موزوں افسر قرار دیے جا رہے ہیں،وہ روالپنڈی کی تحصیل مری سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو جاننے والے پولیس گروپ کے گریڈ 22 کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واجد ضیا دیانت دار اور دبائو سے آزاد افسر ہیں۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا امیگریشن ونگ ایف آئی اے کے سربراہ ہیں، وہ وزارت مذہبی امور میں بھی تعینات رہے ہیں، مسلسل پانچ سال خدام الحجاج کے طور پر سعودی عرب میں ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے ہیں ۔
دوسرے اہم افسر کیپٹن ریٹائرڈ احمد لطیف ہیں، جن کا تعلق سندھ سے ہے ، واجد ضیا اور احمد لطیف سولہویں کامن سے ہیں اور اچھے دوست بھی بتائے جاتے ہیں،احمد لطیف ایف آئی اے میں اینٹی کرپشن ونگ کے سربراہ ہیں اور ان کی شہرت بھی کسی تنازع اور کرپشن الزامات سے پاک بتائی جاتی ہے ۔
ادارے میں تعینات پولیس گروپ کے ہی ڈاکٹر شفیق بھی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کررہے ہیں، تاہم وہ گریڈ 19 میں ہونے کے باعث اس اہم عہدے پر اضافی چارج کی بنیاد پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لہذٰ ان کو گریڈ 20 کے عہدے پر تعینات افسران پر فوقیت دینا مشکل ہے۔
اس ذمہ داری کے لیے اہل افسر کی تعیناتی ایف آئی اے کے سربراہ پولیس گروپ کے گریڈ 22 کے محمدعملیش کریں گے اور سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں محمدعملیش7 روز کے اندر ایک موزوں افسر کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کے لیے نامزد کرنے کے پابند ہیں ۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایف آئی اے کے تمام معاملات عملی طور پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی نظر اور حکم سے آگے بڑھتے ہیں مگر وزیر موصوف اور ادارے کے سربراہ کے درمیان مئی 2016 سے تعلقات کشیدہ ہیں۔
مئی کے مہینے میں وزارت داخلہ کے ایک اجلاس کے دوران وفاقی وزیر نے ایک اخبار میں ایف آئی اے میں بہتری لانے کے حوالے سے ڈی جی ایف آئی اے سے متعلق شائع شدہ ایک خبر پر ادارے کے سربراہ پر میڈیا سے براہ راست تعلقات رکھنےکے حوالے سے تنقید کی تھی ، جس پر ایف آئی اے کے سربراہ نے اجلاس میں رد عمل دیا اور کہا تھا کہ اگر وزیر ان پر اعتماد نہیں کرتے تو وہ چلے جاتے ہیں۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس بظاہر معمولی مگر تلخ واقعے کے بعد وزارت داخلہ کے کسی بھی اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے کو کبھی طلب نہ کیا گیا اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا ایف آئی اے کی نمائندگی کرتے رہے ۔
معتبر زرائع کا کہنا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی مگر وزیراعظم ہاوس وزارت داخلہ کے راستے کی رکاوٹ بنا، اب معاملہ یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محمد عملیش ادارے کے سربراہ ہیں اور وہ ہی حتمی طور پر ایڈیشنل ڈی جی کے عہدے پر فائز افسر کا نام سپریم کورٹ کو ارسال کریں گے ۔
کیا وزیراعظم ہاوس اور وزارت داخلہ کی منظوری کے بغیر وہ ایسا کر سکیں گے ؟ اور اگر وہ ان میں سے کسی ایک سے بھی پوچھ کر تعیناتی کرتے ہیں تو کیا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ بننے سے پہلے ہی وہ افسر متنازع نہیں ہوجائے گا؟ اس مسئلے کا ایک حل یہ نظر آتا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے ان تینوں افسران کے نام ان کی اہلیت، تعیناتیوں اور دیگر تفصیلات کے ساتھ سپریم کورٹ بھیج دیں اور ٹیم کے سربراہ کے نام کا فیصلہ بنچ کو کرنے دیں ۔