خصوصی رپورٹس
01 مئی ، 2017

”چلے تھے ساتھ“ نے پاکستانی فلموں کو چَلنا سکھادیا

”چلے تھے ساتھ“ نے پاکستانی فلموں کو چَلنا سکھادیا

”چلے تھے ساتھ“ نے پاکستانی فلموں کو چَلنا سکھادیا، میں رات ایک بجے”مسکراتے“ ہوئے گھر میں داخل ہوا، اندر آتے ہی جلدی سے گیٹ بند کیا، ”موڈ“بہت اچھا تھا اس لیے سب ”اچھا “لگ رہا تھااسی لیے پانی کی موٹر چلانے کا ”رسک “ بھی لے لیا کہ پانی نے کون سا آنا ہے بس موٹر کی پانی کھینچنے کی چند ناکام سانسوں کوسُن کر ایک منٹ میں تو موٹر بند کرنی ہوگی۔

”مسکراتے“ ہوئے پانی کے ٹینک  کا  ڈھکن اٹھایا تو  پانی گرنے  کی  آواز  نے ”مسکراہٹ“ کو بڑھادیا۔جی ہاں! جادو ہوگیا تھا۔ پانی آگیا تھا۔دو گھنٹے کا ”جادو“ ہی تو دیکھ کر گھر آیا تھا۔یقین اُس وقت بھی نہیں آیا تھا کہ ہمارا پاکستانی سینما ”بڑا “ ہوگیا ہے، ہمارا پاکستانی سینما ”چَلنا “ سیکھ چکا ہے۔

”پَری“ کی داستان”بیٹی“ کی کہانی، دوستوں  کی  دوستی  رِشتوں کی زبانی،بلند پہاڑوں اور خوبصورت وادیوں کی ”پاکستانی“ فلم ”چلے تھے ساتھ“ دیکھ کر ”مسکراتا‘ ‘ ہوا جب سینما سے باہر نکلا تو باہر پارکنگ تک بچوں اور بڑوں سب کی آوازوں میں مسکراتے ہوئے یہی دو باتیں سنائی دیں کہ ”بہت اچھی فلم تھی“ اور ”واہ مزا آگیا“۔واقعی مزا آگیا کیونکہ گلگت اور ہنزہ کی لوکیشن کا جادو تھا اور” ریشم “ کی پاکیزگی کا اثر  کہ فلم دیکھتے ہوئے کسی آئٹم سانگ،کسی ایکشن سین،کسی زوردار چیخ ،کسی بیہودہ مذاق،کسی ذومعنی مکالمے اور گالیوں کے ”اسپیشل افیکٹس“ کے بغیر ہی دو گھنٹے مزے سے گزر گئے۔

فلم کے شروع میں ہی ریشم اور اس کے تینوں دوستوں کو جلدی سے رجسٹر کرایا گیا۔پانچ منٹ میں ہی آپ ان چاروں کے ساتھ ایک خوبصورت سفر کیلئے اپنا سامان بھی پیک کرلیتے ہیں۔پھر پہلے سینئر اداکارہ ”شمیم ہلالی “ اور بعد میں چینی کی طرح میٹھے ”ایڈم“ کی اینٹری ہوتی ہے جو فلم دیکھنے والوں کو کھینچ لیتی ہے۔

تانیا یعنی منشا پاشا اور زین یعنی اسامہ کی لڑائیاں تو پہلے سین سے ہی ”آن اور آف“ ہوتی ہیں لیکن ریشم اور ایڈم کی دوستی پہلی ہی نظر میں محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ژالے سرحدی کا کرداربھی فارس خالد کی طرح فلم میں رنگ بڑھاتا ہے اور بہروز سبزواری کا کردارسنجیدگی۔بہروز سبزواری نے سائرہ کے ”ابا“ کا کردار نبھایا ہے۔”ابا “ اور ”ایڈم“ کی نوک جھونک دیکھتے ہوئے ایک لمحے کو ڈر پیدا ہوتا ہے کہ فلم اب دھرمندر کی ”چپکے چپکے“ گووندا کی ”دلہے داجہ“ یا پھر اوم پوری کی ”آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے“ میں بدل جائیگی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی فلم اکشے کھنہ کی ”آ اب لوٹ چلیں“ یا ہمالے پترا کی طرف جاتی ہے۔فلم”چلے  تھے ساتھ“ کی لوکیشن ہی فلم کی ”ہیرو“ رہتی ہے۔

بہروز سبزواری 25سال پہلے اسی طرح پاک چین دوستی والے ڈرامے میں بھی ہیرو کا کردار نبھا چکے ہیں، اس بار وہ شاہراہ ریشم میں رہنے والی سب کا درد رکھنے والی سب سے محبت کرنے والی خالص ”ریشم “کے نگہبان ہوتے ہیں۔بہروزایک اداکارہی نہیں بلکہ عظیم اداکار ہیں، اداکاری سیکھنے والوں کیلئے ڈائریکشن دینے والوں کیلئے پورا اسکول ہیں۔

مشہور کلاسک ڈراموں خدا کی بستی ،ان کہی ،تنہائیاں اور الجھن سمیت بہروز صاحب نے اتنے مختلف کردار ادا کیے ہیں کہ ان کا ذکر کرنے کیلئے پوری کتاب بھی کم پڑ جائے گی لیکن اُن کی خدمات کا ذکر پورا نہیں ہوگااور اس فلم میں تو بہروز صاحب نے گانا بھی گایا ہے۔سائرہ نے بطور ریشم یادگار کردار ادا کیا ہے۔وہ فلم کے ہر سین میں بہت خوبصورت ،حسین اور پاکیزہ نظر آئی ہیں۔

سائرہ کے کپڑے ، بالوں کا اسٹائل،اداکاری سب کچھ بہت نیچرل اور زبردست تھا۔سائرہ کو یقیناً اپنے اس فیصلے پر مان ہونا چاہیے کہ انھوں نے بطور ہیروئن اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ’’چلے تھے ساتھ‘‘ جیسی فلم سے کیا۔فلم کا ٹائٹل رول لگتا  ہے  جیسے  سائرہ کو دیکھ کر  اور سائرہ کیلئے  ہی لکھا  گیا ہو۔ ”چلے تھے ساتھ “  میں  جتنا خوبصورت ’’پاکستان‘‘ سینما پر دکھایا گیا ہے میرا نہیں خیال کہ اس سے پہلے پاکستانی سینما پر دکھایا گیا ہوگا۔عطا آباد جھیل، راکا پوشی ،ہنزہ ،گلگت،تاریخی قلعے اور خنجراب کی سیر آپ فلم دیکھنے کے بعد برسوں بھی نہیں بھولیں گے۔سینماٹو گرافی بہت ہی اچھی ہے ۔لگتا ہے خوب ہوم ورک کیا گیا تھا۔

فارس خالد یعنی فراز اور ایڈم کی لڑائی کے بعد کا ”ٹائم لیپس“ بھی بہت زبردست لوکیشن پر کیا گیا ہے۔پہاڑیوں، وادیوں ،شاہراہوں اور دریا وٴں کو” ڈرون“ اور ”کرین “نے اور بھی شاہانہ انداز سے دکھایا۔دو سین جو سڑک پر ہوئے ان میں تھوڑا سا کیمرہ ہلتے ہوئے دکھا لیکن مجموعی طور پر یہ ایک ایوارڈ وننگ سینما ٹو گرافی ہے ۔

چینی ایڈم کے ٹرانسلیٹر موبائل کا آئیڈیا بھی زبردست ہے اور یہ اتنا ”کنیکٹ“ ہوتا ہے سب کے ساتھ کہ عین اس وقت جب شروع میں ہی یہ ٹرانسلیشن آپ کو بے چین کرتی ہے سائرہ فوراً ہیڈ فون نکال کر ایڈم کو دے دیتی ہے، فلم دیکھنے والے یقیناً یہی سوچتے ہیں کہ ادھر ان کی بے چینی شروع ہوئی ادھر ریشم نے فوراً محسوس کر کے یہ شور ختم کروایا۔چشمے پر جانا اور وہاں تانیا کی جگہ شمیم ہلالی کاآنے کا سین بھی ماسٹر اسٹروک ہے ،شلوار قمیض پہلی بار پہننے کی مشکل بھی خوب دکھائی گئی ہے۔مکالموں میں ”چینی نمکین ہے کیا“ اور ”چائنا کا مال ہے زیادہ نہیں چلے گا“بالکل صحیح جگہ استعمال ہوئے، اسی طرح دوستوں کا ”لعنت“ دکھانا اور ”12بجے آجاوٴں گا ابو “ بھی ہم سب کی زندگی کا حصہ ہیں۔

فلم شہنشاہ کے مشہور مکالمے ”رشتے میں تو ہم تمہارے باپ لگتے ہیں“ کا بھی مزیدار استعمال کیا گیا ہے۔اداکاری کے میدان میں تمام اداکار ٹیم کی طرح جڑُے نظر آئے۔

ریشم اور ایڈم کی کیمسٹری ،فراز کی شرارتیں اور جذبات،تانیا اور زین کی محبت، لڑائی اور ماضی ،اپنے بچوں کی ستائی ہوئی شمیم ہلالی کا سب کیلئے پیاراور بہروز سبزواری کی شفقت سب بہت نیچرل اور موثر تھا۔بیک گراوٴنڈ میوزک گانوں سے زیادہ اچھا تھا لیکن گانوں میں ”مولا“ سب پر بھاری تھا۔

پروڈکشن ڈیزائن ،میک اپ ،اسٹائل اور واڈروب سب اسکرین پر بہت خوبصورت نظر آئے۔کہانی بھی خالص ، سادہ اور خوبصورت ہے ۔ایڈیٹنگ کی تعریف نہیں کرنا یہاں کنجوسی ہوگی کیونکہ ایڈیٹر نے ڈائریکٹر کے ساتھ ملکر فلم کو مختصر اور جھول کے بغیر بنایا۔جھول تو نہیں لیکن فلم میں تھوڑی تشنگی ضرور رہی ،شمیم ہلالی کے کردار کو صحیح سے اینڈ نہیں کیا گیا ۔

تاریخی قلعے پر ایک چٹان کا ذکر خاص طور پر ایسے کیا گیا جیسے بعد میں اس پر کوئی اہم سین ہوگا لیکن ایسا کوئی میلو ڈرامہ بھی نہیں ہوا،ایڈم کے بچپن کا کردار ادا کرنے والے ایکٹر کے فیچر زکو بڑے ایڈم کی طرح کا مکمل چینی ہونا چاہیے تھا۔اینڈ میں دروازے کا استعمال شاید ہنزہ یا گلگت کی کوئی روایت ہے یا بہروز کے گھر کی کوئی رسم ، اگر ایسا تھا تو اسے پہلے اور موثر طور پررجسٹر کرایا جانا چاہیے تھا۔

’’چلے تھے ساتھ‘‘ شعیب منصور،سید نور یا جاوید شیخ جیسے منجھے ہوئے ڈائریکٹرز کی فلم نہیں، یہ یاسر نواز یا ندیم بیگ جیسے انٹر ٹینمنٹ مسالحہ فلمیں دینے والوں کی فلم بھی نہیں۔’’چلے تھے ساتھ‘‘ کے کپتان یعنی فلم کے ڈائریکٹر عمر عادل ہیں جنھوں نے پہلی ہی بار فلم بنا کر سینما جانے والوں کے دل جیت لیے۔

’’چلے تھے ساتھ‘‘ حالیہ برسوں میں پاکستان کی سب سے بڑی ” کلین انٹر ٹینمنٹ رومانٹک کامیڈی“فلم ہے۔یہ فلم بڑے پردے کی بڑی اور ٹیکنکلی بہت ساوٴنڈفلم ہے جو پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر انجوائے کرسکتی ہے، جس کو دیکھ کرآپ کو سب کچھ اچھا لگتا ہے اور ساتھ ہی یقین آجاتا ہے کہ پاکستانی سینما کو چلنا آہی گیا۔

مزید خبریں :