07 جولائی ، 2012
کراچی … چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ آئین پار لیمنٹ سے بالادست ہے۔آئین کا آرٹیکل 204 واضح کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص عدالت کے حکم سے روگردانی کرے ، عدالت کو بدنام کرے یا کوئی بھی ایسا عمل کرے جس سے عدالت توہین، تضحیک یا عداوت کا نشانہ بنے تو عدالت ایسے شخص کو سزا دینے کی مجاز ہے۔ ان خیالات کااظہار چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سندھ ہائی کورٹ کے 16 وکلا کو سپریم کورٹ میں پریکٹس کا لائسنس دینے کی تقریب سے خطاب میں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم پرعمل درآمد نہ کرنے پرملک کے چیف ایگزیکٹوکیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی اور انھیں اپناعہدہ گنوانا پڑا۔چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کے مقدمے کے فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا تحریر کردہ اضافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ ملک میں انتظامیہ اورارکان پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہیں اور اس سے بالاتر نہیں ، آئین کو ریاست کے ہرستون پر فوقیت حاصل ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے قانون برابر ہے۔ ملکی اورغیرملکی ہر شہری پرریاست کے آئین اورقوانین کی پاسداری لازم ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کے اضافی نوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین میں ریاست کے تینوں اعضاء ہم پلہ ہیں۔ پارلیمانی بالادستی کا تصور پاکستان کے آئین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انھوں نے برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ تصور اب اس جزیرے میں بھی رائج نہیں رہا جہاں اس کا ظہور ہوا تھا۔ بہتر ہوگا کہ آزادی کی چھ دہائیاں گزر جانے کے بعد قوم بھی برطانیہ کی متروک روایات ونظریات کی ذہنی غلامی چھوڑ دے اور خود کو پاکستانی آئین کا پابند بنائے۔