31 مئی ، 2017
بیاسی سال قبل آج ہی کے دن کوئٹہ میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا ،عمارتیں زمین بوس ہوگئی تھیں، ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے لیکن شہریوں نے ماضی کی تباہی سے سبق حاصل نہیں کیا اور آج کل شہر بھر میں بلند وبالا عمارات کی تعمیرات مسلسل جاری ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اکتیس مئی 1935کو7 اعشاریہ7 شدت کا زلزلہ آیا تھاجس کے نتیجے میں تقریبا ًسارا شہر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ انفراسٹریکچر مکمل تباہ ہوا تھا اور اس تباہی سے شہر اور اطراف کے علاقوں میں مجموعی طور پر 50ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
اس بڑی تباہی کے بعد شہر میں پختہ چھتوں کے مکان بنانے پر پابندی عائد کردی گئی اور1937 میں’ بلڈنگ کوڈ‘ رائج ہوا جس کے تحت صرف ’سیون ٹائپ‘ مکانات بنانے کی اجازت دی گئی یعنی چھتیں لکڑی اور چادر ’ٹین‘ سے بنیں ہوں اور30 فٹ سے اونچی نہ ہو ں لیکن جیسے جیسے آبادی بڑھی تعمیراتی قانون پر عملدرآمد غیر موثر ہوتا گیااور آج صورت حال یہ ہے کہ شہر کے کمرشل علاقوں میں بلند وبالا پلازہ تو بنے ہی تھے اب گلیوں میں بھی تیس فٹ سے بلند عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں ۔
دوسری جانب اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے چند سال قبل بلوچستان ہائیکورٹ نے بلڈ نگ کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کئے تھے اور عدالتی احکامات کے تحت ابتدا میں بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی پر میٹروپولیٹن کارپوریشن حکام نے شہر میں ڈھائی سو بلڈنگ مالکان کو نوٹسز جاری کئے تھے اور محدود پیمانے پر کارروائی بھی کی گئی لیکن اب یہ معاملہ بھی سرد خانے میں پڑا ہے اور بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور دوسری جانب دن رات تعمیرات کا عمل مسلسل جاری ہے۔
مئیر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ نے جیونیوز کو بتایا کہ میری میئرشپ سےقبل شہربھرمیں 300سےزائدبلند عمارتیں تعمیرکی گئیں۔ شہرمیں کئی عمارتوں کےمالکان کونوٹس بھی جاری کئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلڈنگ کوڈ پرعملدرآمدکےلئےبلڈنگ کوڈ اتھارٹی موجودنہیں ہے،اس کے لئے تجویز صوبائی حکومت کودی جاچکی ہے،اتھارٹی کی تشکیل کےبعد شہرمیں عمارتوں کاسروےکیاجائےگا،بلڈنگ کوڈ اتھارٹی میں کم ازکم سات متعلقہ محکموں کی نمائندگی ہوگی، کوئٹہ شہربہت گنجان ہوچکاہے، مزیدتعمیرات کی گنجائش نہیں ہےخدانخواستہ زلزلہ کی صورت میں شہرمیں بہت تباہی ہوگی۔
ادھر ڈپٹی مئیر کوئٹہ یونس بلوچ نے جیونیوز کو دئیے گئے انٹرویو میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک بااثر مافیا ہے ان کی رسائی اتنی ہے کہ راتوں رات عمارت تعمیر کرتے ہیں۔
ستم تو یہ ہے کہ بلوچستان میں ابھی تک بلڈنگ کوڈ اتھارٹی ہی نہیں بنی ہے کہ خلاف ورزی کو روکھے۔ دوسری جانب کوئٹہ زلزلہ زون میں واقع ہونے کے باوجود شہر میں زلزلے اور کسی اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی موثر انتظام نہیں ہے، کرائسز سیل قائم تو ہے لیکن غیر فعال ہے جبکہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور نظامت شہری دفاع کے محکمے بھی ضروری آلہ و سہولیات اور جدید مشینری سے محروم ہیں اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت نہیں رکھتے مگر صوبائی حکومت، متعلقہ ادارے اور حکام خواب خرگوش میں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں 1935 کے تباہ کن زلزلہ کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر اتی قانون پر عملدرآمد ضروری ہے اور خلاف ورزی کرنے والی عمارتوں کو گرانا ہوگا جبکہ متعلقہ ادارے بھی ہنگامی تقاضوں اور موجود حالات کے مطابق جدید سہولیات سے آراستہ ہوں نہیں تو زلزلے جیسی قدرتی آفت میں انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات بڑھتے رہیں گے۔