08 جون ، 2017
رمضان المبارک میں پھلوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے کے باعث سوشل میڈیا پر کراچی سے ایک تحریک کا آغاز کیا گیا جس میں عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ اس مہم کے دوران تین دن پھل خریدنے کا بائیکاٹ کریں اور اس مہم کو خوب زور و شور سے چلایا گیا جسے بعض لوگوں نے سراہا اور کسی نے تنقید بھی کی۔
سوشل میڈیا پر چند سطروں پر مشتمل اس طرح کی تحریکوں کے الفاظ یا کسی دوسرے کے اسٹیٹس، پوسٹ کو آگے بڑھانا ہمارے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ لگتا ہے اور اس حوالے سے ہمارے عوام تو کمال کرتے ہی ہیں لیکن اس بار میڈیا نے بھی کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نام نہاد بائیکاٹ کو شہ سرخیوں میں رکھا۔
اس مہم کو بعض سطح پر سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی اور کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے تو سونے پر سہاگہ کرتے ہوئے تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ اس سب معاملے میں حکومت اس سے بھی دو ہاتھ آگے رہی اور کمشنر سے جواب طلبی کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔
کسی بھی شہر کا کمشنر اپنے شہر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لیے کمشنر کراچی کو عوام کی اس مہم میں شامل ہونے کا اعلان کرنے کے بجائے رمضان میں پھلوں کی قیمتوں کو قابو کرنے کے اقدامات اٹھانے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔
لیکن کمشنر کراچی نے سیاستدانوں والا کام کیا۔ اس ڈر سے کہ عوام کہیں اس ہڑتال کے اعلان پر ان پر چڑھائی نہ کردے، وہ خود بھی اس میں شامل ہوگئے اور لوگوں سے واہ واہ بھی کروائی۔
لیکن ہماری بھولی عوام بھی خوب ہے۔ انہیں رمضان میں صرف پھلوں کی قیمتیں نظر آئیں۔ پورا سال بنیادی استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں، کھانے کی چیزوں میں ملاوٹ کی جاتی ہے اور مشروب کی جعلی بوتلیں ملتی ہیں لیکن اس سب پرعوام خاموش ہے۔
عوام کا رمضان میں بس چلا بھی تو بیچارے غریب پھل فروشوں پر۔ پھل خراب ہوجائیں تو نقصان تو ہوگا ہی، لیکن ایک روز کی کمائی نہ ہونے پر ان کے بچے روٹی کا انتظار کریں گے۔
منڈیوں میں آڑھتی، یعنی پھلوں کا تھوک میں کاروبار کرنے والے کروڑپتی لوگ ہیں، اس ہڑتال سے ان کا کچھ نہیں جائے گا۔ اگر لوگوں نے پھل نا خریدا تو آڑھتی چھوٹے موٹے کسانوں سے پھل خریدنا بند کردیں گے۔ نقصان پھرغریب کا ہی ہوگا کیونکہ زیادہ تر پھل چھوٹے موٹے کسان ہی اگاتے ہیں۔ بڑے زمیندار تو اپنی زمین ٹھیکے پر دے کر بڑے شہروں میں سکون سے رہتے ہیں۔
ہمارے بیچارے عوام بہت ہی بھولے ہیں اور شایدانہیں روٹی کو روٹی کہنا بھی نہیں آتا اس لیے وہ اسے چوچی کہتے ہیں۔ ان کو یہ نظر ہی نہیں آسکتا کہ کرپشن کرنے والوں کے خلاف کس طرح ہڑتال یا تحریک چلائی جاسکتی ہے، لوگوں کا حق مارنے والوں کے خلاف کس طرح آواز اٹھائی جاسکتی ہے، نوجوانوں کو نشے کی لت میں ڈالنے والوں کا ہاتھ کس طرح روکا جاسکتا ہے، غریبوں کی زمین پر قبضہ کرنے والوں کا کس طرح خاتمہ کیا جاسکتا ہے، ضمیر فروشوں کا محاسبہ کس طرح کیا جاسکتا ہے، جعلی ڈگری لے کر اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے، حکومت میں رہتے ہوئے یا سیاست کی آڑ میں اربوں روپے لوٹنے والے کس طرح بچ نکلتے ہیں، ان کے خلاف عوام مہم چلانا ہی نہیں جانتے بلکہ کرپشن میں کسی کو عدالت یا تفتیشی ادارہ بلائے تو اس کے حق میں یہی عوام نعرے لگاتے ہیں اور وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔
عوام کے علاوہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے مخصوص لوگ اور بعض این جی اوز بھی وہاں آواز اٹھاتے ہیں جہاں سے انہیں کچھ مل جائے ورنہ وہ بھی خاموش ہیں۔
آخر میں یہ کہتا چلوں کہ کسی بھی حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنا اچھی بات ہے لیکن یہ کوئی حل نہیں کہ پھل مہنگا ہے تو ہڑتال کردو، کسی سڑک پر دھماکا ہو تو سڑک بند کردو، ملاوٹ والا آٹا ملے تو آٹا کھانا بند کردو۔ ہمیں ان مسائل کا ہڑتال کرنے کے بجائے مل کر ڈھونڈنا چاہیے۔
اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ یہ مسئلہ ایٹم بم سے زیادہ خطرناک سمجھا جارہا ہے کیونکہ آبادی کی زیادتی ہمیں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل سے دوچار کررہی ہے۔
کیا سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے اور این جی اوز اس معاملے پر بھی عوام کو بتائیں گے کہ کس طرح ہڑتال کرکے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکتا ہے؟
رئیس انصاری، جیو نیوز لاہور کے بیورو چیف ہیں۔