10 جولائی ، 2017
ان دنوں اسلام آباد کی فضا ٹھیک نہیں کیونکہ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں دونوں کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر برابرتوجہ دینے پر مجبور کر دیا گیا ہے جو آج سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ میں جمع کرائی جائے گی۔ اس معاملے پر بڑھتا ہوا سیاسی پارہ ایک اور سیاسی بحران کو جنم دے سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ 70 برس سے اس ملک میں ہوتا آ رہا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے تقریباً 48گھنٹے پہلے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے کیس کے اہم گواہ قطری شہزادے کے بیان ریکارڈ نہ کرنے پر جے آئی ٹی پر سخت وار شروع کردیا۔ ممکن ہے جے آئی ٹی اپنی رپورٹ میں قطر جا کر قطری شہزادے کے بیان ریکارڈنہ کرنے کی وجوہات کا ذکر کرے تاہم مسلم لیگ ن نے قطری شہزادے کی شہادت کی ریکارڈنگ کے بغیر جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مسلم لیگ ن توقع رکھتی ہے کہ سپریم کورٹ اس پہلو کو بطور خاص مدنظر رکھے گی۔
دوسری جانب عمران خان کی زیر قیادت اپوزیشن نے حکومت اور مسلم لیگ ن کی طرف سے ’’فائول پلے‘‘ کا خطرہ ظاہر کیا ہے اور کسی قسم کے ایڈونچر ازم کرنے کے نتائج سے متنبہ کیا ہے۔
ہفتہ کے روز مسلم لیگ ن کے اہم وزراء نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جے آئی ٹی تحقیقات کے دوران ان کے اعتراضات اور جے آئی ٹی اور اس کے ممبران کے کنڈکٹ کے بارے ان کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن اور اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی کے ری ایکشن اور کائونٹر ری ایکشن نے پہلے ہی ملک میں بالعموم اور وفاقی دارالحکومت میں بالخصوص سیاسی صورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے اور اب آنے والے دنوں یا ہفتوں میں حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ بظاہر تصادم کی صورتحال کا زیادہ امکان ہے یہ دلچسپ بات ہے کہ مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس مطالبے میں پی پی کے اعتزاز احسن بھی مسلم لیگ ن کے ہم نوا ہیں۔ حکومت جس نے پہلے حسین نواز کی تصویر لیک اور ویڈیو ریکارڈنگ پر سوال اٹھائے تھے، اچانک یوٹرن لیتے ہوئے جے آئی ٹی کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے؟ اس پر سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ریکارڈنگ کا مقصد کارروائی کی شفافیت کو قائم رکھنا ہے۔ عمران خان اپنی واضح فتح دیکھ رہے ہیں اور اپنے حامیوں کو پیشگی مبارک باد دے رہے ہیں۔
پی پی پی نے درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ مثلاً ایک طرف تو پی پی رہنمائوں نے نوازشریف پر الزام لگایا ہے کہ وہ احتساب سے گریز کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف نواز شریف سے کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے تو سازش کی نوعیت سے پردہ اٹھائیں تاکہ پارلیمنٹ کوئی پوزیشن لے سکے۔
نواز شریف اس وقت سرکشی کے موڈ میں نظر آئے جب انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جب جے آئی ٹی 10 جولائی کو اپنی رپورٹ جمع کروائے گی تو وہ اس روز ایک اور پاور پراجیکٹ کا افتتاح کر رہے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نتائج کی ذرا پرواہ نہیں کر رہے۔
جب اپریل 2016 میں پاناما لیکس دنیا بھر میں شہ سرخیاں بنا، تب سے پاکستانی سیاست’ یرغمال‘ نہیں ہوئی ہے اور اس نے خاص طور پر عمران خان کو بڑھاوا اور اعتماد دیا ہے جنہیں 2013ء کے انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں پر بننے والے جوڈیشل کمیشن کے بعد سے سیاسی شکستوں کا سامنا درپیش تھا۔
اس جوڈیشل کمیشن نے یہ قرار دے کر عمران خان کو مایوس کر دیا کہ انتخابات زیادہ تر آزاد اور شفاف ہوئے تھے۔جے آئی ٹی نے اپنے 60 دنوں میں سپریم کورٹ کو پیش رفت سے مکمل طور پر آگاہ رکھا اور ہر 15 روز بعد اپنی عبوری رپورٹس پیش کیں جن پر سپریم کورٹ نے اطمینان کا اظہار کیا۔
جے آئی ٹی اس وقت بنائی گئی جب سپریم کورٹ کا5 رکنی بنچ تین دو کے تناسب سے بٹ گیا یعنی تین جج صاحبان کے خیال میں پیش کئے گئے ثبوت پر مزید تحقیقات ضروری ہے جس کیلئے دو آپشنز زیر غور لائے گئے ، جوڈیشل کمیشن یا جے آئی ٹی کی تشکیل۔ شروع میں عمران خان نے جے آئی ٹی کی اس بنا پر مخالفت کی کہ جب تک نواز شریف وزیراعظم کی کرسی پر ہیں شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی لہٰذا انہوں نے نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔
دوسری جانب وزیراعظم اور مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی پر خوشی کا اظہار کیا لیکن جب سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی کیلئے متعلقہ محکموں کی طرف سے بھیجے گئے ناموں کو سپریم کورٹ نے رد کر دیا اور عدالت نے ازخود6 ناموں کو چنا تو سرکاری حلقوں میں کچھ تشویش محسوس کی گئی تاہم مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی کو کبھی مسترد نہیں کیا اور طارق شفیع کے بیان کی ریکارڈ ہونے تک اسے عدالت میں چیلنج کرنے کی بات نہیں کی۔ طارق شفیع نے الزام عائد کیا کہ وعدہ معاف گواہ بننے پر ان پر دبائو ڈالا گیا۔چنانچہ پہلی بار وزیراعظم ہائوس کی طرف سے ردعمل سامنے آیا اور وزیراعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔
جے آئی ٹی نے بھی بعض اداروں کی طرف سے تعاون نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ریکارڈ ٹیمپرنگ کے خدشے کا اظہار کیا گیا جس کی تحقیقات جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے دوسرا فوری ردعمل وزیراعظم کےصاحبزادےحسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے سامنے آیا۔
حسین نوازنےخود بھی تصویر لیک ہونے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ عدالت معاملے کی تحقیقات کروائے۔جے آئی ٹی نے فاضل عدالت کوبتایا کہ اس ضمن میں ضروری کارروائی کر دی گئی ہے۔واٹس ایپ کال اور جےآئی ٹی ممبران کے بارے میں تحفظات جیسے معاملات بھی اٹھائے گئے لیکن وزیراعظم اور ان کی حکومت نے کسی بھی مرحلےپر جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنے تحفظات کوریکارڈ پر لایا گیا اور اب اس خدشے کااظہارکیا ہے کہ یہ سب ایک قسم کی سازش کا حصہ ہے۔
یہ سازشی تھیوری اس وقت رزیادہ موضوع بحث بن گئی جب نوازشریف نے جے آئی ٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد پہلی بار حکومت کے خلاف سازش کا ذکرکیا، تاہم انہوں نے ان مبینہ سازشی عناصر کا نام بتانےکے حوالے سے کئے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ انکی صاحبزادی مریم نواز تو اس سے بھی دو قدم آگے چلی گئیں جب انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے پاس بتانے کیلئے بہت سے راز ہیں مگر وہ قومی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں۔
دوسری دلچسپ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب جے آئی ٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں میدیا رپورٹنگ اور ٹاک شوز پر تشویش کا اظہار کیا اور پندرہ روزہ اپنی ایک رپورٹ میں 100 سے زیادہ صفحات محض اس ایشو پر لکھ دیے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اپنے محدود وقت میں جے آئی ٹی نے میڈیا پر توجہ دینے کایہ کام کیسے کر لیا۔ اگر سپریم کورٹ تمام پارٹیوں اور میڈیا کو جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کی کارروائی پرتبصروں سے باز رہنے کا کہہ دیتی تو میڈیا ہائپ پیدا ہوتی اور نہ ہی متنازعہ باتیں جنم لیتیں۔
یہ ہمارے عدالتی فیصلوں کا مسئلہ رہا ہے کہ متعلقہ فریق صرف اس فیصلے کو تسلیم کرتا ہے جو اس کے حق میں ہو اور اس فیصلے کو مسترد کر دیتا ہے جو اس کے خلاف چلا جائے۔اگر سابقہ تاریخ دیکھی جائے تواس کیس میں بھی ہم ایسا ہی ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اب تمام آنکھیں سپریم کورٹ پر جمی ہیں کہ بنچ کے تین جج صاحبان جے آئی ٹی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے حتمی فیصلے میں اس ایشو کو کیسے حل کرتے ہیں۔
کیا وہ اپنی پہلی آبزرویشن پرہی قائم رہتے ہیں جس میں دو ججز نے اختلافی نوٹ دیا تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے یا پاناما لیکس پرمختلف فیصلہ دیتے ہیں؟