11 جولائی ، 2017
ہم کیسی قوم ہیں کہ جن عظیم ہستی نے اپنا تن، من، دھن ہمیں ایک آزاد ملک دینے کے لیے تیاگ دیا، ان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کی پچاسویں برسی انتہائی خاموشی سے گزر گئی، مملکت خداداد پاکستان میں اس حوالے سے کوئی تقریب نہ ہوئی کیونکہ ہم تو پاناما پاناما کھیل رہے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں منتخب وزیر اعظم کو سزا دلوانے کے سوا کوئی اور مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ قوم اس وقت مٹھائی بانٹتی ہے جب کسی وزیر اعظم کو پھانسی ہوتی ہے یا اس کو اسی کا مقرر کردہ کوئی عہدے دار جلا وطن کر دیتا ہے، میں اسی لیے یہ کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں کبھی قوم بننے ہی نہیں دیا گیا، ہم آمریت کی گھٹن میں پروردہ ایک ہجوم نما ریوڑ ہیں جو پہلے نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں رہا اور اب اسی نظام کے زیر اثر غلام تر ہوتے جا رہے ہیں، ہمیں کوئی بھی ریوڑ کی طرح ہی ہانک سکتا ہے۔
مادر ملت فاطمہ جناح نے لاہور سے ایوب آمریت کی سیاہ رات کے خلاف میدان میں آنے کا فیصلہ کیا، جسٹس شاہ دین کے صاحبزادے اور ماہنامہ ہمایوں کے مدیر میاں بشیر احمد کی رہائش گاہ ’المنظر‘ سے جنرل ایوب کے خلاف انتخابی مہم کا آغاز کیا گیا، میرے والد گرامی جناب سعید بدر کو اس مہم کے دوران المنظر میں مادر ملت سے تفصیلی ملاقاتوں کا موقع ملا۔
ائیر مارشل محمد اصغر خان، نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالقیوم خان اور دیگر بڑی سیاسی شخصیات ان دنوں المنظر میں آیا کرتی تھیں، افسوس اس وقت بھی قائد اعظم کی عظیم بہن کو کھوکھلے اقتدار کےلیے دھاندلی سے ہروا یا گیا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دلوں کو ہم نے توڑ کے سب کچھ ختم کر دیا جس کا منطقی نتیجہ 16 دسمبر 1971ء کو ہمارے سامنے آیا۔
مادر ملت نے صرف اور صرف جمہوریت کی سر بلندی کے لیے آمر سے ٹکر لی، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان سیاست دانوں کی حکمت عملیوں سے بنا ہے، پاکستان کو جمہوریت کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح ایک انسان کو زندگی کے لیے آکسیجن کی۔
ان کی موت بھی پراسرار حالات میں ہوئی، شریف الدین پیر زادہ کےمطابق ان کو قتل کیا گیا، وفات کے وقت ان کے بستر پر خون کے دھبے تھے ،اس حوالے سے میری انکل منظر بشیر سے بڑی تفصیلی بات چیت ہوتی رہی ہے کیونکہ انکل منجو آٹھ نو برس ہمارے ہاں قیام پذیر رہے اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ان کو بانی پاکستان اور مادر ملت دونوں کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے اور مجھے اور میری فیملی کو ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔
میاں منظر بشیر کو مادر ملت کے سلسلے میں مستند حوالہ تسلیم کیا جاتا ہے، انکل منجو کی مادر ملت پر کافی تحریریں موجود ہیں جن کو حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اسی حوالے سے میں بھی یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ انکل نے مجھے بتایا کہ مادر ملت کی وفات کی خبر کے بعد وہ جہاز پکڑ کر فورا کراچی پہنچے تھے، انہوں نے ایسی تمام باتوں کو غلط قرار دیا کہ مادر ملت کو قتل کیا گیا۔
میں نے اس حوالے سے ان سے تفصیلی گفتگو کی، انہوں نے شریف الدین پیر زادہ کے بیان کو بھی غلط قرار دیا ، ان کے مطابق مادر ملت کے کمرے میں ایسا کچھ بھی نہ تھا، مجھے خوشی ہے کہ مادر ملت کی پچاسویں برسی کے موقع پر اس حقیقت کو ریکارڈ پر لانےکا موقع مل رہا ہے۔
انکل منظر بھی آمریت کے سخت خلاف تھے، جنرل محمد ضیاالحق نے گورنر ہاؤس لاہور میں ایک ملاقات کے دوران ان کو گورنر بنانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا، اس حوالے سے میری کتاب ’پاکستان کی کہانی، انکل منجو کی زبانی‘ جلد منظر عام پر آ رہی ہے جس میں اللہ کی رحمت سے ایسے ان گنت واقعات کو پہلی مرتبہ منظر عام پر لایا جائے گا۔
یہ ملک ہم نے اپنے لاکھوں بزرگوں، بیٹے، بیٹیوں کی قربانیوں سے حاصل کیا ہے، اس کی بنیادوں میں ہماری بہنوں اور ماؤں کی عصمتوں کی سرخی ہے، ہماری نئی نسل آج نظریہ پاکستان سے ہی دور ہے، پاکستان کے معماروں کا صبح و شام مذاق اڑایا جا رہا ہے، بونے دانشوروں کی دانش نے نئی پود کو دین و دنیا دونوں سے ہی دور کر دیا ہے، ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)