بلاگ
27 جولائی ، 2017

صادق اور امین کون؟

صادق اور امین کون؟

پاناما لیکس کیس کی 273 دنوں تک چلنےوالی سماعت اور پھر 10 جلدوں کی جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ یہ کیس عمران خان نیازی بمقابلہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تھا۔

دوسری طرف سپریم کورٹ میں ہی حنیف عباسی کی دائر کردہ درخواست میں عمران خان کوالیکشن کمیشن سے اپنے اثاثےاور آف شور کمپنی چھپانے کے الزام میں نااہل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ کیس حنیف عباسی  بمقابلہ عمران خان نیازی ہے۔

بنیادی طور پر دونوں کیسز میں آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تابع نااہلی کی استدعائیں کی گئی ہیں۔ جس کے مطابق اگر کوئی بھی رکن اسمبلی صادق اور امین نا ہو تو وہ رکن اسمبلی رہنے کا اہل نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ دونوں کیسز میں مندرجہ زیل الزامات بھی مشترک ہیں۔

1. عمران خان اور شریف خاندان دونوں نے لندن میں فلیٹ خریدے۔

2. شریف خاندان کی ملکیت نیلسن نیسکول کی طرح عمران خان کی نیازی سروسز لمیٹڈ بھی آف شور کمپنی ہے۔

3. وزیراعظم اور عمران خان دونوں کی منی ٹریلز متنازع ہیں۔

4. وزیراعظم نے مریم نواز کو تحفے میں رقم دی جب کہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے عمران خان کو تحفے میں رقم دی۔

5. وزیراعظم اور عمران خان دونوں کا 1980 کا رقم کی منتقلی کا غیر ملکی ریکارڈ غائب ہے۔

6. وزیراعظم اور عمران خان دونوں جن بینکوں سے ٹرانزیکشنز کرتے تھے۔ وہ بند ہوچکے ہیں۔

سپریم کورٹ وزیراعظم سے 13 سوالات پوچھ رہا ہے اور عمران خان سے 14 سوالات۔ مگر ان دونوں کیسز کا موازنہ کرنے میں اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں جو حدود متعین کردی گئیں ہیں۔ وہ اٹل ہیں۔

وہ سب پر برابر لاگو ہوتی ہیں۔ چاہے وہ وزیراعظم ہو یا پھر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی رکنِ اسمبلی۔

اگر وزیراعظم یا عمران خان یا کوئی بھی اور صادق اور امین نہیں (چاہے وزیراعظم نے مبینہ کرپشن کی کمائی سے لندن فلیٹس خریدے اور پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا) یا (چاہے عمران خان نےحق حلال کی کمائی سے بنائے گئےاثاثے الیکشن کمیشن سے چھپاتے ہوئے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نا کیے ہوں)، دونوں کیسز میں آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے مطابق وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

جس کی وجہ سے ان دونوں اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کا عندیہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ اگر نواز شریف نااہل ہوئے تو پھر عمران خان کی نااہلی بھی پکی ہے۔ کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی جیسی درخواستوں میں ایک کو نااہل قرار دیا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کا اس ضمن میں مؤقف یہ ہے کہ عمران خان نے جو اثاثے بنائے۔ وہ بحیثیت کرکٹر بنائے۔ ناکے بحیثیت عوامی نمائندے کے۔ اس لئے حنیف عباسی کی طرف سے عائد کردہ کیس کو وزیراعظم کے خلاف چلنے والے پاناما لیکس کیس سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن میرے خیال میں تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر لیڈران اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسئلہ یہ نہیں کہ جو اثاثے عمران خان نے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر سے چھپائے وہ عوامی نمائندہ ہوتے ہوئے بنائے تھے یا نہیں؟

مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہوئے آف شور کمپنی اور اسلام آباد میں خریدا گیا، فلیٹ 2014  کے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیوں نہیں کیا اس لیے بظاہر عمران خان نے اپنے اثاثے الیکشن کمیشن سے چھپائے۔

الیکشن  لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت امیدوار کی طرف سےحلف دیا جاتا ہے کہ امیدوار کے پاس جوکچھ ہے، اس کی تفصیلات مذکورہ فارم پر ظاہر کردی گئیں ہیں اور ان اثاثوں کے علاوہ امیدوار کے اور کوئی اثاثے نہیں ہیں۔ چنانچہ اس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان نے اثاثے چھپا کر آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی خلاف ورزی کی۔

پاکستانی آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 سے متعلق عمران خان 21 جولائی 2007 کو کہہ چکے ہیں کہ یہ آرٹیکلز قابل اطلاق ہی نہیں ہیں، اگر فرشتے اسمبلی میں بٹھا لئے جائیں، تو شاید ان کا اطلاق ممکن ہو لیکن انسانوں پر ان کا اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ سب پھنس جاتے ہیں اسمبلی میں کہیں نا کہیں۔

آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کسی بھی قسم کی، دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کی جانیوالی غلط بیانی اور اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی کی صورت میں سپریم کورٹ کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ مذکورہ رکن اسمبلی کو صادق اور امین ناسمجھتے ہوئے نااہل قرار دے سکتا ہے۔

پاناما لیکس کیس کے بعد پیچیدہ سیاسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے آرٹیکلز 62 اور 63 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ جس کے بعد یقینی طور پر صادق اور امین ہونے کی جو شرائط آئین میں درج ہیں۔ وہ یقینی طور پر عوامی نمائندگان کے چال چلن  کو دیکھتے ہوئے رکھی جائیں گی۔ کیونکہ پاکستانی عوامی نمائندگان کو دیکھتے ہوئے یہ تو ہونہیں سکتا کہ آئین میں تبدیلی کرنے کی بجائے عام عوام ایسے نمائندوں کو منتخب کریں جوکہ ان 62 اور 63  پر پورا اترتے ہوں۔

حکومت کی طرف سے ان آرٹیکلز میں تجویز کردہ ترامیم اور دیگر سیاسی جماعتوں کی آمادگی ظاہر کرتی ہے کہ ناصرف حکومت بلکہ دیگر جماعتیں بھی اپنے اپنے اراکین اسمبلی کو اس قابل سمجھتی ہی نہیں کہ وہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 62 پر پورا اتر سکیں۔

اور اب چونکہ ان آرٹیکلز کا شکار پارٹی سربراہان ہونےجارہے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتیں سیاسی مخالفتوں کو بالائے طاق رکھ کر اور مشترکہ پارلیمانی مفاد کو دیکھتے ہوئے ان آرٹیکلز میں ترامیم کرنا چاہتی ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اور انفرادی مفادات کی خاطر اکٹھا ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔


جیو نیوز کا اس بلاگر اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔