01 اگست ، 2017
بعض یادیں کتاب زیست کا حسین باب بن جاتی ہیں اور غور و فکر کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ زندگی کے تجربات و مشاہدات نظریات کو تشکیل دینے اور مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
گزشتہ کالم میں ایک ممتاز تجزیہ نگار کا ذکر ہوا تھا جس نے کوئی تین ہفتے قبل اپنے کالم میں لکھا کہ میاں نواز شریف آج کل اپنا مقدر لکھ رہے ہیں۔ ان کا یہ فقرہ پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ انسان اپنے مقدر پر کس قدر قادر ہے اور کس قدر قادر نہیں؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر صدیوں سے بحث جاری ہے اور ہر شخص اس سوال کا جواب اپنے اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربےکی روشنی میں دیتا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ایک واقعہ سن لیجئے جس کا میں عینی شاہد ہوں اور جس کا ذکر میں نے بروقت چند دوستوں سے بھی کردیا تھا تاکہ بوقت ضرورت’’سند رہیں‘‘۔
اگلے دن صبح صبح مجھے ان بزرگ محترم کا فون آیا۔ ارشاد ہوا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے دوست وزیر اعظم تو بن جائیں گے لیکن ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے کہ یہ مارچ1990کی بات ہے جب میاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو مرحوم پاکستان کی وزیر اعظم تھیں۔ میں حکومت پنجاب میں ایک عدد سیکرٹری تھا۔ محترمہ نے وزیر اعظم بننے کے تھوڑے عرصے بعد چار افسران کو او ایس ڈی بنادیا تھا جن پر الزام تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ کا اعتماد حاصل ہے اور وزیر اعلیٰ ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے ہیں۔
محترمہ کا’’خام خیال‘‘ تھا کہ ان افسران کو او ایس ڈی بنانے سے میاں صاحب کی حکومت کمزور ہوجائے گی۔ یہ محترمہ کی انتقامی پالیسی کا بنیادی مقصد تھا۔ رات کوئی آٹھ بجے کے لگ بھگ میاں صاحب کا فون آیا کہ آپ گھر پہ رہیں میں آرہا ہوں۔ پھر پوچھا کوئی مصروفیت تو نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ تشریف لائیں۔
میرے پاس ایک بزرگ تشریف رکھتے ہیں۔ وہ جلد ہی تشریف لے جائیں گے۔ میاں صاحب تشریف لائے تو وہ بزرگ بھی موجود تھے۔ میں نے بزرگ کا لفظ عمر کے حوالے سے استعمال کیا تھا لیکن میاں صاحب نے اسے روحانی حوالہ سمجھا۔ میں نے تعارف کرایا تو میاں صاحب نے فوراً سوال داغ دیا۔
جناب یہ بتائیے کہ’’بینظیر کب جائے گی؟‘‘ چند لمحوں کے لئے آپ 1990میں لوٹ جائیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ وہ دور پنجاب اور وفاق میں شدید نفرتوں اور سازشوں کا دور تھا اور حکومتی توانیاں ایک دوسرے کو ہٹانے اور ناکام بنانے پر صرف ہورہی تھیں۔
میاں صاحب وزیر اعظم بننے کے لئے پرتول رہے تھے اور ان پر بینظیر حکومت کا ہر لمحہ بھاری تھا۔ جب کہ اس دوڑ میں محترمہ بینظیر میاں صاحب سے کہیں آگے تھیں۔ وہ بزرگ میاں صاحب کے سوال کے لئے بالکل تیار نہیں تھے۔ فوراً جواب دیا ’’ چلی جائےگی بس تین چار ماہ کی بات ہے‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے گھر بھجوانے کا انتظام کریں۔ میاں صاحب نے فوراً اپنی گاڑی پیش کردی اور ان کا ڈرائیور انہیں لے کرچلاگیا۔ جب تک میاں صاحب وزیر اعلیٰ تھے ان سے ملاقات رہتی تھی۔ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ انہیں کچھ پیشہ ور خوشامدیوں، درباریوں نے گھیر لیا اور ناخوشگوار مشورے دینے اور ’’ٹوکنے والے‘‘ نگاہوں سے غائب ہوگئے۔
ویسے میرا تجربہ ہے کہ حکمرانوں کو مخلص لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی، انہیں تابع فرمان کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ویسے میرا تجربہ ہے کہ حکمرانوں کو مخلص لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی، انہیں تابع فرمان کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس رات میاں صاحب کوئی نصف گھنٹہ میرے پاس رہے۔ اگلے دن صبح صبح مجھے ان بزرگ محترم کا فون آیا۔ ارشاد ہوا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے دوست وزیر اعظم تو بن جائیں گے لیکن ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
یہ الفاظ آج بھی میرے حافظے پر کندہ ہیں۔ اس دن چند ایک دوستوں سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں یہ بات بتائی اور کہا کہ یاد رکھنا وقت گزرنے کے بعد بتائی گئی بات مشکوک ہوتی ہے اس لئے وقت سے پہلے ایک بزرگ کی بات آپ کو امانت کے طور پر بتارہا ہوں۔ ان دوستوں میں دو حضرات تو ملک سے باہر ہیں لیکن ایک گواہ اظہر محمود ہیں جو چند برس قبل ایف آئی اے سے ریٹائر ہوئے۔
اسی محفل میں موجود سعید صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کبھی آپ نے ان بزرگوں کی بتائی گئی بات سچ ہوتے دیکھی۔ میں نے ان کو ذاتی حوالے سے چند ایک واقعات بتائے اور ایک واقعہ اپنے استاد پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم کے حوالے سے بھی بتایا۔
بھٹو حکومت کے خلاف 1977میں پی این ا ے کی تحریک عروج پر تھی تو حکومت نے تعلیمی ادارے بند کردئیے۔ مرزا صاحب چھٹیوں کا فائدہ اٹھا کر مری جارہے تھے تو ان بزرگ سے ملنے گئے۔ انہوں نے پوچھا مرزا صاحب مری سے واپسی کب تک ہے۔ مرزا صاحب نے بتایا کہ اگست میں۔ بزرگ نے جواب دیا’’ان شااللہ آپ کی واپسی تک بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہوگا‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
میں اس واقعہ کو بھول گیا تھا لیکن پاناما کیس میں فیصلہ محفوظ ہوا تو محترم مجیب الرحمٰن صاحب کا فون آیا اور انہوں نے اس سنی سنائی بات کی مجھ سے تصدیق چاہی۔ خود شامی صاحب بھی اس بزرگ کے حلقہ احباب میں شامل رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان کی اکثر باتیں درست ثابت ہوتے دیکھیں۔
ان بزرگ کا نام ڈاکٹر نذیر قریشی تھا۔ قیام پاکستان سے کئی دہائیاں قبل انہوں نے شاید کلکتہ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ جب میرا ان سے تعارف ہوا تو وہ بیڈن روڈ لاہور پر پریکٹس کرتے تھے، خاصے بوڑھے اور کمزور ہوچکے تھے۔ میرے بغیر پوچھے انہوں نے میری زندگی کے مستقبل کے حوالے سے کئی باتیں کہیں جو صحیح ثابت ہوئیں۔ ان کا انتقال شاید1990 میں ہی ہوا۔ ایک بار انہوں نے مجھ سے ایک ایسی بات کہی جو تین ہفتوں کے بعد ہی پوری ہوگئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا؟ جواب ملا’’صاحب نگاہ کی نگاہ لوح مقدر پر ہوتی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ہر شخص کی ایک لوح مقدر بھی ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے اعمال پر قدرت دی ہے اور ان کا حساب بھی لیا جائے گا لیکن پیدائش ،وفات،رزق، عزت،علم وغیرہ مقدر کا حصہ ہوتے ہیں۔
حضرت علیؓ سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے حرام طریقے سے دولت کمالی ہے، کیا یہ مقدر کا حصہ ہے۔ جواب ملا یہ دولت تمہارے مقدر میں تھی لیکن تم نے بے صبری سے حرام طریقے سے اکٹھی کرلی۔ صبر کرتے تو جائز طریقے سے آجاتی۔ جائز اور ناجائز ہمارے اعمال ہیں جن پر ہم قادر ہیں ورنہ اللہ پاک تو چٹانوں میں چھپی چیونٹی کو بھی رزق دیتے ہیں۔
سیاست کا ذکر ہورہا تھا۔ اگست1990میں صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت برطرف کردی۔ نومبر 1990میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ اپریل 1993میں ان کی حکومت بھی برطرف کردی گئی۔ وہ شہزادوں کی مانند زندگی گزارتے اور بھرپور حزب مخالف کا کردار سرانجام دیتے رہے۔ کبھی کبھار دوستوں کی مخصوص ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئی کا ذکر ہوتا تو ہم اس کے بارے میں شک کا اظہار کرتے۔
ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئی کا صحیح مفہوم 12اکتوبر 1999کو سمجھ میں آیا جب جنرل مشرف نے شب خون مار کر میاں صاحب کو اٹک قلعے میں بند کردیا۔
ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئی کا صحیح مفہوم 12اکتوبر 1999کو سمجھ میں آیا جب جنرل مشرف نے شب خون مار کر میاں صاحب کو اٹک قلعے میں بند کردیا۔میرا ذاتی خیال تھا کہ ڈاکٹر قریشی صاحب کا اشارہ صرف اکتوبر1999کی جانب تھا لیکن جب پاناما کیس میں فیصلہ محفوظ ہوا تو چند دوستوں نے یہ واقعہ یاد دلایا۔
پاناما کیس کے دوران جس طرح حکمرانوں کی رسوائی ہوئی وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے لیکن 28جولائی کو جس طرح سپریم کورٹ نے چند منٹوں میں وزیر اعظم کو فارغ کردیا اس نے ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب کی بات یاد دلادی، اگر مقدر کوئی شے نہیں یا انسان اسے خود لکھتا ہے تو1990میں ڈاکٹر صاحب کو یہ علم کیسے ہوگیا تھا کہ میاں صاحب کے ساتھ 12اکتوبر 1999اور 28جولائی 2017کو کیا ہوگا؟
ان کی وزارت عظمیٰ کا انجام ہر بار اچھا نہیں ہوگا؟ یہ سب مقدر کے کھیل ہیں کہ کبھی میاں نواز شریف مقدر کے سکندر ہوتے ہیں اور کبھی مقدر کے گداگر.....!!
یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں یکم اگست 2017 کو شائع ہوا۔