04 اگست ، 2017
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو لاہور کے حلقہ این اے 120 سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔
فیصلے کے بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے اپنے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا تاہم گزشتہ روز کے پارلیمانی اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کو 2018 ءتک وزیر اعظم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور شہباز شریف بدستور وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے۔
مبصرین اس فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں کیونکہ پنجاب پر شہباز شریف کی گرفت بہت مضبوط ہے، وہ یہاں کی سیاست کو بھی بہت بہتر سمجھتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں پنجاب کا کردار ہمیشہ کی طرح فیصلہ کن ہو گا۔
مسلم لیگ ن این اے 120 لاہور 3 کے لیے اب کس کو ٹکٹ دیتی ہے اس حوالے سے بیگم کلثوم نواز کا نام بھی سامنے آیا ہے، خیر جو بھی نام حتمی طور جب سامنے آئے گا، اسے اس اہم حلقے سے ستمبر میں متوقع ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مبصرین کے مطابق اس حلقے میں گھمسان کا رن پڑ سکتا ہے لیکن حقیقت کچھ یوں ہے کہ 1985ء سے ہی یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے، اس حلقے کے چند علاقوں کے دورے کے دوران یہ واضح محسوس ہوا کہ لوگوں میں اس فیصلے کے خلاف سخت اضطراب پایا جا رہا ہے اور لوگ خاصے سیخ پا ہیں۔
ٹکسالی، اسلام پورہ، ناصر باغ، موہنی روڈ، ہال روڈ، میو اسپتال اور کوپر روڈ سے گزرتے ہوئے متعدد جگہوں پر 'میاں دے نعرے وجن گے، شیر ساڈا آوے ہی اوے اور اسی طرح کے جوشیلے نعرے سنائی دیے۔
ایک مشہور تھڑے پر نان چھولے کا لاہوری ناشتہ کرتے وقت بھی لوگ روایتی لاہوری جذباتی اور جوشیلے انداز میں نواز شریف کی حمایت میں گفتگو کر رہے تھے، سچ پوچھیں تو کم از کم آج اس حلقے میں تحریک انصاف کا اس طرح زور نہیں نظر آیا جیسا سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔
اسی حلقے میں ایک دکاندار جمشید بٹ کا کہنا ہےکہ فیصلہ پہلے سے ہی طے تھا لیکن لاہور نواز شریف کا تھا ہے اور رہے گا۔
تحریک انصاف نے ڈاکٹریاسمین راشد کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے، 2013ء کے انتخابات میں انہوں نے 52 ہزار 354 ووٹ حاصل کئے جبکہ نواز شریف نے 91 ہزار 683 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، پی پی پی کے زبیر کاردار نے 2605 جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ نے 953 ووٹ حاصل کیے۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا ساتھ مل جائے تو مقابلہ سخت ہو گا لیکن ہماری رائے اس کے برعکس ہے، یہ تینوں تو کیا 10پارٹیاں مل کر بھی اس نشست کو حاصل نہیں کر سکتیں، جاوید قلفی والےنے کہا کہ مقابلہ تو ہو گا، پی ٹی آئی والے آسانی سے ہار نہیں مانیں گے۔
سن 2008ء کے انتخابات میں بیگم کلثوم نواز کے قریبی عزیز بلال یاسین نے 65 ہزار 946 ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے جہانگیر بدر کو شکست دی، جہانگیر بدر صرف 24 ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔
سن2002ء میں جب پرویز مشرف دور میں بھی ن لیگ کے پرویز ملک نے پی پی پی کے الطاف قریشی کے مقابلے میں 33 ہزار 741 ووٹ سے کامیابی حاصل کی۔
سن 1990ء میں نواز شریف نے پی ڈی اے کے امیدوار بزرگ سیاست دان ائیر مارشل اصغر خان کومات دی۔
این اے 120 میں بلدیاتی پوزیشن دیکھی جائے تو 99 فیصد مسلم لیگ ن کے امیدوار جیتے ہیں، جبکہ اس کی حدود میں دونوں صوبائی حلقے بھی ن لیگ کے پاس ہیں، یہ وہ زمینی حقائق ہیں جو فیس بک کے دانشوروں کے تجزیوں سے مختلف ہیں۔
اس حلقے کے دورےکے بعد قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہمدردی کا ووٹ بھی ن لیگ کو مل سکتا ہے اور مختلف دکانوں، تھڑوں، چائے اسٹالوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے گفتگو کے دوران یہ بات محسوس کی گئی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اس حلقے کو مانیٹر کریں گے، آنے والے چند دنوں میں یہ حلقہ ملکی سیاست کا محور و مرکز بننے جا رہاہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اگر یہ انتخاب جیت جاتی ہے تو ملکی سیاست پر لرزا طاری ہو جائے گا، اگر ہار جاتی ہے تو حسب روایت وہ ن لیگ پر الزام لگا دے گی۔