13 اگست ، 2017
قیام پاکستان کو ستر برس گزر چکے ہیں اور ستر برس قوموں کی زند گی میں خاصا عرصہ ہوتا ہے۔ چین ہم سے دو سال بعدآزاد ہوا، سنگاپور، کوریا، ملائیشیا نے تین دہائیاں قبل ہماری آنکھوں کے سامنے معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کیا۔ یہ تمام اقوام دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ گئیںاور عالمی سطح پر اپنی معاشی ترقی کا نقش بٹھا دیا۔
ایوب خان کے دور میں پاکستان کو تیسری دنیا میں معاشی ترقی کے رول ماڈل کے طور پر عالمی سطح کی تعلیمی درس گاہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا تھا لیکن گزشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان معاشی دنیا میں محض بھکاری بن کر رہ گیا ہے اور اپنا مستقبل قرضوں کے عوض گروی رکھ چکا ہے۔
بات سمجھنے کی فقط اتنی سی ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی اہل، باکردار، بصیرت افروز اور سچی قیادت کی مرہون منت ہوتی ہے اور صرف انہی خوبیوں والی قیادت قوم کو متحرک کرتی اور ملک کا مقدر بدلتی ہے۔ چین، کوریا، ملائیشیا اور سنگاپور چند دہائیاں قبل غربت، پسماندگی اور معاشی ابتری کے نمونے سمجھے جاتے تھے۔ بلاشبہ چین کا معا ملہ تھوڑا سا مختلف ہے کہ چین میں انقلاب کے بعد ہی منصوبہ بندی اور معاشی ترقی کا عمل شروع ہوگیا تھا لیکن میں نے جو چین 1986/87ء میں دیکھا وہ حددرجہ غربت، لاچاری اور قابل رحم حالت کی دردناک تصویر نظر آتا تھا۔
آج چین عالمی قوت ہے اور دوسرے ممالک ترقی کے ماڈل سمجھے جاتے ہیں جبکہ پاکستان پر ہر قسم کے لیبل چپکائے جاتے ہیں۔ تیزی سے معاشی ترقی کا سفر طے کرنے والے ممالک اور پاکستان میں بنیادی فرق قیادت کا ہے۔ اہلیت، بصیرت، وژن اور کردار سے عاری قیادت ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکتی ہے نہ قوم کی صلاحیتوں کو ابھار سکتی ہے۔ میرا مشاہدہ اور مطالعہ شاہد ہے کہ صرف باکردار اور سچی قیادت لوگوں کی سوچ، انداز، جذبے اور ذہنی و قلبی کیفیت کو بدلتی ہے، عوام کے دلوں میں مستقل جگہ بناتی ہے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہتی ہے۔ ذاتی کردار، اہلیت اور سچائی سے محروم سیاست الیکشن تو جتوا سکتی ہے، کارکنوں کو وقتی جوش بھی دلا سکتی ہے لیکن ملک و قوم کی دیرپا تعمیر نہیں کرسکتی۔
معاشی ترقی کا خواب شرمندہ کرنے کے لئے محنت، جذبے، نظم وضبط، منزل کے حصول کی شدید خواہش اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے اور قوم میں ان خوبیوں کی لہر اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب قوم کو اپنے لیڈر کی سچائی اور کردار پر اندھا یقین ہو۔
تحریک پاکستان کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے اس کی کامیابی میں سب سے بڑا محرک اور اہم ترین وجہ قائداعظم کے کردار کی سچائی نظر آتی ہے۔ اسی لئے میں طلبہ کو یاد دلاتا رہتا ہوں کہ پاکستان سچ کی پیداوار ہے۔ اسی سچ کے سبب عوام نے قائداعظم پر اندھا اعتماد کیا، انہیں دل و جان اور جذبوں کے تحفے پیش کئے، ان کے فرمودات پرعمل کیا اور بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا۔
قائداعظم بھی اتنے سچے تھے کہ انہوں نے قوم کو جو خواب دکھایا اور قوم سے جو وعدہ کیا وہ پورا کر دکھایا اور جدوجہد کی راہ میں ذاتی صحت، زندگی اور مال و دولت کا ایثار کیا حتیٰ کہ اپنی زندگی بھر کی محنت سے کمائی دولت کا تھوڑا سا حصہ بہن اور بیٹی کو دے کر باقی سب کچھ قوم کو دے دیا۔ وہ ایسا نہ بھی کرتے تو بہرحال بابائے قوم رہتے لیکن دراصل یہ ان کی پاکستان سے محبت اور ایثار کی علامت تھی۔ لیاقت علی خان اور قائداعظم کے دوسرے رفقاء کی سیاست، اقتدار اور دنیا سے رخصتی کے بعد یہاں لوٹ مار، اقتدار کے ذریعے دولت سازی، اقربا پروری، خوشامد نوازی، میرٹ اور اصول کی نفی اور عیش و عشرت کی سیاست کا ایسا غدر برپا ہوا جو ساری اخلاقی، قانونی اور معاشرتی قدروں کو بہا کر لے گیا۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے دوران قانون، اصول اور سچائی کا اس قدر قتل عام ہوا ہے کہ ساری قوم اس رنگ میں رنگی گئی ہے۔
جب حکمران لوٹ کھسوٹ، قانون و اصول شکنی، جھوٹ و فریب، اقربا و دوست پروری، خوشامد نوازی وغیرہ کی خود مثالیں قائم کریں تو پھر عوام سے اور معاشرے کے خواص سے ایمانداری، اصول و قانون پرستی اور سچائی وغیرہ کی توقع عبث اور محض فریب نظر ہے۔ نتیجے کے طور پر اب ہم اخلاقی گراوٹ کی اس پستی پر پہنچ چکے ہیں جس کے خلاف قائداعظم نے نہایت دردمندی سے گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو انتباہ کیا تھا۔
افسوس کہ ہم قائداعظم کی اس تقریر کے سنہرے اصولوں، راہنما اصولوں اور بزرگانہ نصیحتوں کوبھول کر سیکولرازم تلاش کرنے کے چکر میں مبتلا ہوگئے اوراسے اپنے ایجنڈے بڑھانے کے لئے استعمال کرنے لگے۔ قائداعظم کی اس تقریر میں میثاق مدینہ کی روشنی نظر آتی ہے اور موجودہ دور میں اخلاقی، معاشی اور سیاسی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے راہنما اصولوں کے روشن مینار نظر آتے ہیں۔ کالم کے محدود دامن کے پیش نظر یہ صرف لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائداعظم نے جہاں اس تقریر میں انسانی آزادی، شہری مساوات، پاکستانی قومیت، نظم و ضبط، اتحاد و یک جہتی، قانون کی حکمرانی، ذاتی عقیدے اور مذہب کی آزادی کا درس دیا وہاں واشگاف انداز میں سفارش، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، عدل و انصاف سے انحراف کے خلاف بھی وارننگ دی اور رواداری، یگانگت اور قومی بھائی چارے کو فروغ دینے کی اپیل کی۔
قائداعظم تقریباً ایک سال پاکستان کے گورنر جنرل رہے اور اس دوران انہوں نے اپنے کردار، انداز، فیصلوں اور کارکردگی کے ذریعے قومی خزانے کے تقدس، سادہ طرز حکومت، قانون کی حکمرانی، سفارش و اقربا پروری کی نفی اور ایمانداری و سچائی کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں جن سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ قائداعظم سچے انسان تھے، وہ جوکہتے اس پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے۔ لیاقت علی خان اورقائداعظم کے دوسرے ساتھی بھی اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ آفتاب کی اس دھوپ کے رخصت ہوتے ہی ان تمام برائیوں کی سرپرستی کی گئی حتیٰ کہ اقتدار عوام کی مقدس امانت کی بجائے عیش و عشرت، دولت سازی، دربار داری، اقربا پروری، جھوٹ، خوشامد نوازی، بیرون ملک اثاثوں کی بھرمار، کرپشن، قانون اور میرٹ کی پامالی اور دھوکہ دہی کا دوسرا نام اوربہترین ذریعہ بن کر رہ گیا۔ اس انداز سیاست نے سچ اور جھوٹ کی تمیز بھی مٹا دی۔ پاکستان سچ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور آج پاکستان میں سچ ہی کا قحط ہے۔
یہ آرٹیکل اس سے قبل روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔