16 اگست ، 2017
پاکستان اور ہندوستان کو آزاد ہوئے 70برس بیت گئے لیکن کشمیری آج بھی سکون کی ایک گھڑی کو ترس رہے ہیں، کل مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا، اس موقع پر وادی کشمیر میں گویا سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج شیطان مودی کے کانوں کو اب بھی محسوس ہو رہی ہو گی۔
چند ماہ قبل میں نے کشمیر کےتاریخی پس منظر پر جنگ میں ایک کالم لکھا جس کی دنیا بھر میں کشمیری دوستوں نے بہت تعریف کی، سری نگر سے تعلق رکھنے والے ہمارے کشمیری صحافی دوست مرتضی شبلی نے مجھے خصوصی طور پر کہا کہ کاش پاکستان کے دیگر صحافی بھی آپ کی طرح سوچیں اور لکھیں۔
انسان کی شخصیت اس کے جذبات کے گرد گھومتی ہے، بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مسئلہ کشمیر دو جذباتی انسانوں کی جذباتیت کا پیدا کردہ ہے، ان میں ایک کردار برطانوی ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا اور دوسرا کردار پنڈت جواہر لعل نہرو ہیں۔
ان دونوں نے بڑی خوبصورتی سے برطانوی ہند کے سب سے بااختیار وائسرائے کو استعمال کیا، ایڈوینا کی نہرو سے محبت کی آڑ میں ہندوستان کی تاریخ کا سب سے شرمناک کھیل کھیلا گیا جس کا خمیازہ لاکھوں لوگ بھگت چکے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔
اکبر ایس احمد اپنی مشہور زمانہ کتاب جناح، پاکستان اور اسلامی تشخص میں مشہور مورخ اسٹیلنے والپرٹ کے حوالے سےلکھتے ہیں کہ نہرو نے اپنے معاشقے کا اقرار 20 جون 1948ء کو ماؤنٹ بیٹن فیملی کے لیے الوداعی ملاقات میں ہی کر لیا تھا، اس کے بعد عاشقان کو جب بھی موقع ملا، ملتے رہے۔
نہرو 6 اکتوبر 1948ء کو ہوائی جہاز کے ذریعے رات گئے لندن پہنچے اور سیدھا ڈکی(ماؤنٹ بیٹن) اور ایڈوینا کے گھر گئے جہاں ڈکی موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دوبارہ باہم ملے عاشقان کو مہینوں بعد ملاقات کا موقع دینے کے لیے وہاں سے چلے گئے۔
اسٹیلنے والپرٹ لکھتا ہے کہ اس ملاقات کا ذکر ایڈوینا نے ان الفاظ میں کیا کہ انتہائی خوبصورت نہرو اور ایڈوینا نے چار راتیں اکٹھے گزاریں اور اس دوران لارڈ ماؤنٹ بیٹن لندن میں الگ ٹھہرا رہا، نہرو بہت پڑھا لکھا انسان تھا لیکن کردار اس کا کیا تھا۔
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے نہرو کے دورۂ امریکا کو بدترین سرکاری دورہ قرار دیا، کیونکہ نہرو امریکی خاتون اوّل جیکولین کینیڈی کو چھونے سے باز نہیں آ رہے تھے۔
ایک برطانوی مورخ کے مطابق ایڈوینا نہرو کے معاملے میں بالکل بے بس تھی، مورگن لکھتا ہے کہ 'دونوں عاشق رات دیر تک گھنٹوں باتیں کرتے، اس معاملے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کردار بھی کتنا بے غیرتی بھرا ہے، مزید یہ کہ وہ جناح سے سخت نفرت کرتے تھے، اس کی تصدیق لاری اینڈ کالنز کی کتاب ماؤنٹ بیٹن اینڈ انڈیا میں کی گئی ہے۔
ایڈوینا اور نہرو کی دوستی کا آغاز 1946 ء میں سنگا پور میں ہوا، موسم گرما تک دہلی کے لوگوں کی زبان پر اس کے چرچے تھے، لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا وائسرائے کے گھر کے ساتھ ساتھ ان کے دفتر میں بھی کافی عمل دخل تھا، اس کو پنڈت نہرو نے غالباً محبت کے لبادے میں اوڑھا کر بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا اور تقسیم ہند کی ساری اسکیم ہی بدل ڈالی۔
کشمیر نہرو کی محبت تھا،نہرو وائسرائن کی محبت اور وائسرائے اپنی بیوی کے سامنے بے بس تھا، یہ معاشقہ جناح اور پاکستان پر کئی طرح سے اثر انداز ہوا، اگر ماؤنٹ بیٹن فیملی پر نہرو کی اس قدر ہمہ گیر گرفت نہ ہوتی تو نہرو جناح کے معاملے میں انہیں اپنا ہم خیال نہ بنا سکتے اور نہ ہی اتنی آسانی سے تقسیم ہند کے ماسٹر پلان تک رسائی حاصل کر کے اس پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔
کشمیر کے معاملے میں ایڈوینا نے فوجی دستوں کے غیر قانونی بھجوائے جانے کو نہ صرف سراہا بلکہ اس نے نہرو کے ہمراہ ریاست کا دورہ بھی کیا ،جو لوگ آج کہتے ہیں کہ کردار کسی لیڈر کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے انہیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے، روٹی کی بھوک انسان کو چور بنا دیتی ہے اور جسمانی بھوک کیا کچھ نہیں کروا سکتی، کردار میں ہی عظمت ہے، ایک طرف جناح ہیں جو کردار کی بلندیوں پر ہیں اور ایک طرف نہرو ہے جو اخلاق کی پستیوں میں ہے۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔