18 اگست ، 2017
ہم جسے اپنا بچپن کہتے ہیں یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان کی سوچ کی بنیادیں بن رہی ہوتی ہیں، جدید نفسیات کا پیر و مرشد سگمنڈ فرائیڈ اس عمر کو زندگی کا محور اور مرکز قرار دیتا ہے، انسان تمام عمر اپنے بچپن کی یادوں کا عکس لیے گھومتا ہے اور آخر میں نسٹالجیا کا شکار ہو جاتا ہے۔
انسان اپنے ماضی میں نہیں بلکہ اپنے بچپن میں لوٹنا چاہتا ہے، ابلاغ عامہ کی تکنیکی زبان میں ہم اس کو انسان کا فریم آف ریفرنس کہتے ہیں، ابلاغی سائنس اور نفسیات کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ انسان اپنے فریم آف ریفرنس کے مطابق سوچتا ہے، عمل کرتا ہے اور ردعمل دیتا ہے۔
ہمارا پچپن پاکستان پر طویل عرصہ حکومت کرنے والے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاءالحق کے پاکستان میں گزرا، الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں تھا، ٹرسٹ کے اخبارات بھی حکومتی زبان بولتے تھے۔
جنرل محمد ضیاء الحق میڈیا کے حوالے سے بہت محتاط تھے، میرے والد گرامی محترم سعید بدر بتاتے ہیں کہ ایک قومی اخبار امروز کے صفحۂ اوّل پر لاہور میں ایک مشہور قتل کی اسٹوری کو چار کالمی چھاپا گیا تو صدر پاکستان کا امروز کے مدیر اعلیٰ محمد ہارون سعد مرحوم کو فون آیا کہ ہارون صاحب کیا اس ملک میں صرف جرائم ہی ہو رہے ہیں آپ اس قسم کی خبروں کو اندر کے صفحات پر چھاپا کریں تاکہ لوگ فرسٹریٹڈ نہ ہوں۔
اس دور میں ہم جب بھی ٹی وی آن کرتے تو قاری وحید ظفر قاسمی کی خوبصورت آواز میں نعت چل رہی ہوتی یا ام حبیبہ کی نعت دل میں گداز پیدا کر دیا کرتی تھی،کبھی قاری باسط کی سورہ رحمٰن کی تلاوت چل رہی ہوتی یا کوئی ملی نغمہ جو وطن عزیز کی محبت سے معمور ہوتا، اے وطن پیارے وطن پاک وطن، سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے، ہمارا پرچم پیارا پرچم، جیوے جیوے پاکستان، ناہید اختر، امانت علی خان، نصرت فتح علی خان، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، محمد علی شہکی، عالمگیر، شوکت علی یہ سب عظیم گلوکار ملی نغمے گایا کرتے۔
یوم پاکستان اور دیگر قومی دنوں پر پریڈ ہوا کرتی، صدر پاکستان ایسے تمام پروگراموں میں شرکت کرتے،جس دن قوم سے ان کا خطاب ہوتا اس دن سڑکیں سنسان ہو جاتیں، وہ دور فلم کے لیے برا سہی لیکن برصغیر پاکستان و ہند کا بہترین ڈرامہ اس دور میں بنا جس سے متاثر ہو کر بھارت میں آرٹ فلمیں بنیں۔
عجیب دور تھا جب ہم پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے طالب علم تھے تو اشرف عظیم صاحب نے بتایا کہ اس دور میں کسی ڈرامے میں خاتون کے پانی میں گرنے کے منظر کی عکاسی بھی دوپٹے کے ساتھ ہی ممکن تھی،تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کو 1947ء سے اب تک دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ایک پاکستان وہ ہے جو جناح سے ضیاء تک کا ہے اور دوسرا ضیاء کے بعد کا پاکستان ہے، کل ان کی 29 ویں برسی بے حد خاموشی سے گزر گئی، کیونکہ آمروں کو تاریخ معاف نہیں کیا کرتی، نواز شریف جو مرحوم ضیاء کے سیاسی وارث ہیں، ان کی طرف سے بھی ایک بیان جاری نہیں ہوا جو کئی برس تک فیصل مسجد میں 17 اگست کو مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کے نعرے لگاتے رہے اور ضیاء ان کو اپنی عمر لگنے کی دعا دیتے رہے۔
تاریخ بہت بے رحم ہے، غاصبوں اور ڈکٹیٹروں کو گمنامی کی سزا دیا کرتی ہے، جس بھٹو کو 11سال ختم کرنے کے لیے سارے وسائل لگا دیے گئے، سارا میڈیا بھٹو کی کردار کشی میں لگا رہا، وہ آج بھی زندہ ہے، یہ ایک سبق ہے، ہم سب کے لیے کہ دلوں میں زندہ رہنے کے لیے طاقت نہیں بلکہ محبت کی ضرورت ہوتی ہے،آج جو پارٹی بھٹو جو اپنے آپ کو بھٹو کی سیاسی وارث کہتی ہے وہ بھٹوازم سے کوسوں دور ہے۔
کل جب میں اپنے بیٹے احمد کا ایف ایس سی میں داخلہ کروا رہا تھا تو میں نے اسے اور فاطمہ کو بتایا کہ آج سے ٹھیک 29 سال پہلے 17 اگست 1988ء کو آپ کے بابا نے بھی ایف ایس سی میں ایڈمشن لیا تھا، اسی شام اچانک ٹی وی پر ایک انگریزی پروگرام کو روک کرسورہ یٰسین کی تلاوت لگا دی گئی، میرے کزن نے کہا کہ کہیں بابا ضیاء تو نہیں گزر گیا، کیونکہ یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی اور 9بجے کے خبرنامے میں ایک بھرائی بھرائی سی آواز آج بھی میری سماعتوں میں گونج رہی ہے کہ حکومت پاکستان بڑے رنج و الم کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے، وہ وہاں فوجی یونٹوں کے معائنے کے لیے تشریف لے گئے تھے، اس کے ساتھ ہی ایک عہد کا خاتمہ ہو چکا تھا اب ضیاء کے بعد کا پاکستان تھا۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔