24 اگست ، 2017
ملکی میڈیا کی توجہ سیاست ، کھیل اور تفریحی سرگرمیوں پر حد درجہ بڑھ چکیاورتعلیم ، صحت اور بنیادی حقوق سے متعلق معاملات پر تحقیقی رپورٹس میں نمایاں کمی نظرآرہی ہے۔ عوام کو اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں مل پارہا ہے۔
ملک میں اب بھی ایک بڑا طبقہ جدید طریقہ معلومات سے ناآشنا ہے۔ ایسے میں سوشل نیٹ ورکس نے اپنی جگہ بنائی جسے سوشل میڈیا کا نام دیا گیا ۔ یہ نیٹ ورک میڈیا پر کچھ مثبت اثر اندا ز تو ہوا لیکن زیادہ منفی سرگرمیوں اور پروپیگنڈہ کے زیراثر رہا۔ اب یہ بھی سطحی معاملات ، کاسمیٹک اور انفرادی ایجنڈوں کو فروغ دیتا نظرآتا ہے۔
ایک طرف عام آدمی اپنے رہنے کے لئے چھت کی تلاش میں ہے تو دوسری طرف چند خاندان اور بااثر لوگ اربوں روپے کی سرکاری زمین ہڑپ کرگئے ہیں۔
بات یہ ہے کہ کیا عوامی مسائل پر توجہ دی جارہی ہے؟کیا میڈیا عوام کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق سوالات اٹھا رہا ہے ؟کیا حکومت خلوص نیت سے لوگوں کو تعلیم ، صحت اورغذا کی آسان فراہمی کررہی ہے؟کیا لوگ اپنے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں سے آسان سفر کی سہولتوں کا حق حاصل کرپارہے ہیں ؟کیا سستی رہائش ،غذائی اشیاء ، بجلی ، گیس اور پانی کی فراہمی ممکن ہوسکی ہے؟
ایک طرف عام آدمی اپنے رہنے کے لئے چھت کی تلاش میں ہے تو دوسری طرف چند خاندان اور بااثر لوگ اربوں روپے کی سرکاری زمین ہڑپ کرگئے ہیں۔ سرکاری ادارے اور ریونیو کے محکمے جاگیرداروں، صنعتکاروں، وڈیروں ، سرکاری افسران اوربااثر لوگوں سے قریبی تعلق رکھنے والوں کے ساتھ زمینوں کی بندربانٹ کررہے ہیں ۔غریب شہری گھر کے لئے اور کسان فصل کے لئے زمین سے محروم ہے ۔
بغیر بجلی اور گیس کے لکڑی کاایندھن کے طور پر استعمال آج بھی عام ہے۔ پینے کے صاف پانی کا حصول لوگوں کے لئے بڑامسئلہ بنتا جارہا ہے۔ متعلقہ ادارے شاید عام عوام کو پانی کی فراہمی کی بجائے بڑی کمرشل کمپنیوں ، صنعتی اداروں اور ٹینکرز مافیاکو سہولتیں دینے میں زیادہ سنجیدہ ہیں جس کے لئے وہ غیرقانونی ذرائع کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔
مریضوں کو اچھے معالج سے علاج کی سستی سہولت میسر نہیں ، دواؤں کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کے بس کا کام نہیں رہا۔
سبزی پھلوں مچھلی ، گوشت اورمشروبات کے معیار اور نرخ کو مناسب رکھنے اور برقرار رکھنے کی ذمہ داری کوئی پوری نہیں کررہا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کی جانب سے پیکنگ میں غذائی اشیاء کی فراہمی میں معیار اور نرخوں کو چیک کرنے کی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی جارہی ؟
پینے کے پانی کو عوام تک نہ پہنچانے اور کمپنیوں کی جانب سے بھاری نرخوں میں پانی فروخت کرنے پر کسی کو تشویش نہیں ہے۔ ملک میں عوام بجلی ، گیس ، پانی اور غذائی اشیاء کی مہنگی داموں خریداری پر مجبور ہیں۔ مریضوں کو اچھے معالج سے علاج کی سستی سہولت میسر نہیں ، دواؤں کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کے بس کا کام نہیں رہا۔
غریب طالب علم معیاری تعلیم حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، ایم بی اے ، اکاؤنٹس اور دیگر شعبوں کی جدید تعلیم کے لئے لاکھوں روپے درکار ہیں۔ماضی میں معمولی فیسوں کی ادائیگی پر تعلیم فراہم کرنے والی سرکاری یونیورسٹیا ں اور تعلیمی ادارے اب کہاں ہیں؟
شہروں میں لوگ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سخت محنت کے ساتھ اپنی صحت کو داؤ پر لگارہے ہیں تو دوسری طرف دیہی علاقوں میں لوگ جدیدیت کو موبائل فون اور انٹرنیٹ تک سمجھ کر سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر سمجھوتہ کرچکے ہیں۔
گزشتہ 9 سال یہ نظام حکمرانی آئین کے تحت اپنی اختیارات پر عمل کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن مسائل کے حل، کرپشن اور اس سے جڑے لوگوں سے نجات پانے میں کوئی سنجید نہیں۔
قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے ان کے علاقوں کے جاگیردار، بڑے زمیندار، وڈیرے جو بیک وقت سیاسی جماعتوں کے عہدیدار بھی ہوتے ہیں کبھی بھی اپنے ان غریب لوگوں کو جدیدتعلیم ،بامقصد زندگی اور شعور پیدا کرنے والی قوتوں سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیتے ۔
ان بااثر لوگوں کی اولادیں ملکی اور بیرون ملک نامور تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے ہیں اور واپس آکر اپنی ذات کے لئے اس تعلیم کواستعمال کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ جدید تعلیم ان کے فرسودہ خیالات اور روایات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتی۔ بلکہ یہ اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ انہوں نے شہروں اور اداروں میں بھی اپنا طریقہ حکمرانی اور نظام رائج کر دیا ہے۔
ملک میں جمہوری نظام حکومت موجود ہے جو عوام کی فلاح بہبود کا بڑا دعویدار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ نو سال یہ نظام حکمرانی آئین کے تحت اپنی اختیارات پر عمل کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن عوامی مسائل کے حل ،کرپشن اور اس سے جڑے لوگوں سے نجات پانے میں مکمل طور پرسنجیدہ نہیں ہے۔
موجودہ سیاسی خاندانوں کی نئی نسل سیاسی میدان میں متحرک ہوچکی لیکن وہ اس نظام کی خامیوں سے اپنے آپ کوکس طرح علیحدہ کرسکے گی یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
طارق معین صدیقی کراچی میں جیو نیوز کے سینئر رپورٹر ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔