25 اگست ، 2017
بچپن سے ہی پاک امریکا دوستی کا سنتے آ رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ روس ہمارا دشمن ہے، وہاں لادینیت ہے، اس کے ماننے والے سرخ انقلاب کے پیروکار ہیں۔
سن 1979ء میں جب ہمارے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو انہی دنوں روس کی ریڈ آرمی نے گرم پانیوں کی تلاش میں دریائے آمو کو عبور کر لیا،پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی ہم امریکا کی گود میں جا بیٹھے اور اپنے پڑوس میں واقع سپر پاور سوویت یونین کو ناراض کر کے سات سمندر پار موجود دنیا کی سب سے بے شرم قوم جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر اپنی تہذیب سے دنیا کو آگاہ کر چکی تھی ، اس سے دوستی کر لی،وہ دن اور چند دن پہلے تک ہمارے دانشور امریکی محبت میں ہی گھلے جا رہے تھے لیکن ہمارا بے وفا دوست امریکا ہمارے ازلی دشمن سے محبت کی نئی پینگیں بڑھا رہا ہے، بقول شاعر
باب اِک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
ہم تو 1971ء میں بھی اس بے وفا دوست کے ساتویں بیڑے کے منتظر ہی رہے اور مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے، کیا کہیے کہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
امریکی صدر کی پاکستان کو للکار کے بعد چین نے تو جواب دیا سو دیا لیکن کل کے دشمن نے پاکستان کی حمایت میں بیان دے کر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے،اس حوالے سے غیر جانب دار مبصرین کافی عرصے سے کہہ رہے تھےکہ دنیا میں طاقت کا توازن نئے طریقے سے ترتیب پا رہا ہے اور یہ سب سی پیک کی کرامات اور برکات ہیں،روس کی بغیر لڑے دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہے، پاک چین دوستی کے بعد پاک روس دوستی کا آغاز ہو چکا ہے، ایک نیا بلاک بن چکا ہے اور کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بن چکے ہیں،ایسے میں علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آ رہا ہے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اسکول کے زمانے میں پاک امریکا دوستی کا الاپا گیا راگ بہت سنا، ریگن کے دور میں جارج بش سینئر امریکا کے نائب صدر تھے،وہ صدر جنرل محمد ضیاءالحق کے ساتھ لاہور ایئر پورٹ آئے تو استقبال کرنے والے بچوں میں ہم بھی شامل تھے،مرحوم جنرل ضیاءاور جارج بش نے ہم سے مصافحہ کیا، ہم جن صاحب کو اپنا دوست سمجھ کر ملے تھے اور پاک امریکا دوستی زندہ باد کے نعرے لگائے تھے، وہ ہمارے حقیقی دشمن تھے، اسی جارج بش کے بیٹے بش جونیئر نے دنیا میں وحشت اور بربریت کا ننگا ناچ نچایا، آفرین ہے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی پر جنہوں نے امریکی فوج کو پیغام دیا کہ اگر پاکستان کو اپنی لاشوں کا قبرستان بنانا چاہتے ہو تو خوش آمدید، خوشی ہوئی کہ پاکستان کی جمہوریت کو یار لوگ صبح و شام گالیاں دیتے ہیں، اسی جمہوریت نے ٹرمپ کو مردانہ وار جواب دیا ہے اور جن کو ایسا کرنا چاہیے تھا وہ 2001ء میں لیٹی پوزیشن میں چلے گئے تھے۔
ہم اس حوالے سے اپنے لیکچرز اور کالموں میں اس نئے بلاک کا ذکر کر رہے ہیں، چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی کے ڈین آف آرٹس اور شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چاؤلہ نے ہمارے ساتھ انٹرویو میں بڑا واضح کہا کہ امریکا افغانستان سے کبھی نہیں جائے گا کیونکہ اس کو چین کی خطے پر بالا دستی ختم کرنے کے لیے افغانستان میں رہنا ضروری ہے۔
اسی عالمی تناظر میں گریٹ گیم کا آغاز ہو چکا ہے، بھارت، اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادی ایک طرف ہیں اور پاکستان، چین،روس اور ترکی طاقت کا دوسرا پلڑا ہیں، ایران بھی جلد ہماری طرف آئے گا، ایک نیا عالمی منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے، ہمیں اب آپس کی رنجشوں کو بھلانا ہو گا اور اس عظیم خطرے کا سامنا کرنا ہو گا جو تیزی کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔