بلاگ

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

ساون اور بھادوں ان دونوں مہینوں کو  ویسے بھی اداسی سے کچھ خاص نسبت ہے،ہمارے خطے میں ان مہینوں سے مراد برستے مہینے ہی لی جاتی ہے، ساون کی بارشوں کے، ذکر سے ہمارا سارا ادب بھرا پڑا ہے ،کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ساون بھادوں نہ ہوتے تو اتنی نایاب شاعری کیسے تخلیق ہوتی، یہ موسم ہی اداس کر دینے والا ہوتا ہے جس میں انسان اپنے ماضی میں کھو جاتا ہے اور ایسا  شاعروں، ادیبوں اور بہت حساس طبیعت والے لوگوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی  ہوتا ہے۔

انسان کے موڈ کا اس کے اندر کے موسم سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور کبھی اندورنی اور بیرونی موسم ایک ہو جائیں تو ان کیفیات کا ابلاغ الفاظ میں ممکن نہیں ہوتا،  لاہور میں دو تین دن سے بھادوں اپنے جوبن پر ہے، بارشوں نے موسم میں خنکی پیدا کر دی ہے، گیلی دیواریں ہوں، چاروں طرف نمی پھیلی ہو اور مٹی کی ایک مانوس سی خوشبو میں پنکھے کی ہوا بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، ائیر کنڈیشنر یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسے چلانے سے یہ سارا طلسم ٹوٹ جائے گا جس میں یادیں ہیں،محبت ہے اور سکون کا ایک خاموش احساس، اس سے ایک دن پہلے کراچی کے دوستوں نے بتایا کہ طوفانی بارش نے شہر قائد کو نہلا دیا ہے۔

بہت محترم اور بزرگ صحافی ارشاد احمد حقانی سے جنگ لاہور میں کافی ملاقاتیں ہوا کرتیں، حقانی مرحوم کا تعلق حضرت بابا بلہےشاہ صاحب کی نگری قصور سے تھا جو لاہور سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے، شیخ محمد جہانگیر قصور کے بہت نامی ماہر تعلیم ہو گزرے ہیں، باتوں باتوں میں ان کا ذکر ہوا تو ارشاد احمد حقانی مرحوم نے بہت احترام سے شیخ صاحب کا ذکر کرتے فرمایا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے زیادہ پرہیز گار انسان نہیں دیکھا، یہ ایک بہت بڑا کمپلیمنٹ تھا ایک ایسے انسان کی طرف سے جو خود ایک بہت بڑا نام تھا اور زندگی کی 70بہاریں دیکھ چکا تھا، لاکھوں انسانوں سے مل چکا تھا۔

حقانی صاحب نے مزید بتایا کہ انہوں نے جناب شیخ محمد جہانگیر پر کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا’قصور کا سر سید‘ یہ کالم جنگ میں شائع ہوا، قصور میں تعلیم خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شیخ صاحب کا کردار ناقابل فراموش ہے، شیخ محمد جہانگیر کے چار صاحبزادے ہیں،جاوید محمود،عرفان مسعود،باسط جہانگیر اور شاہد رحیم،جاوید محمود شیخ ان کےسب سے بڑے صاحبزادے تھے، وضع داری، خوش لباسی اور زندہ دلی،ایک ماہ قبل ان کا انتقال ہوا، ساون کی ہی ایک اداس تاریخ تھی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وضع داری اور روایت پسندی کا انتقال ہو گیا ہے اور کل ان شاندار انسان جن کو قصور کا سر سید کہاجاتا تھا کے شاندار اور وضع دار صاحبزادے کی رسم چہلم ہے جنہوں نے صرف اپنے والد کی محبت میں بلہے شاہ کی نگری کو نہ چھوڑا۔

چالیس برس تک مسلسل لاہور سے قصور روزانہ آتے لیکن اپنی روایت پسند طبیعت اور وضع داری کو ترک نہ کیا، دیال سنگھ کالج کے شعبہ انگریزی کے سربراہ رہے، غالب اور میر کے سیکڑوں اشعار ازبر تھے، انگریزی، اردو اور فارسی ادب کا وسیع مطالعہ ان میں ایک متانت لایا اور ایک بہت بڑے ماہر تعلیم اور پرہیز گار انسان کا بیٹا ہونا، ان کا فخر تھا، یہ تمام باتیں مل کر ان کی شخصیت کو بے حد سادہ اور خلوص کا ایک مرقع بنا دیتی تھیں، وہ ہر شام کو فاطمہ کو فون کرتے اور ڈھیروں باتیں کرتے،وفات سے ایک شام پہلے بھی ان کا فون آیا اور انہوں نے بہت کمزور آواز میں فاطمہ سے بات کی،جس سے فاطمہ پریشان ہو گئی،24 جولائی کی صبح یہ خوبصورت،وضع دار اور نیک سیرت انسان ہمیشہ کے لیے اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آدمی کے تین والد ہوتے ہیں، ایک وہ جو آپ کو دنیا میں لانے کا سبب بنے، دوسرے جنہوں نے اپنی بیٹی آپ کے نکاح میں دی اور تیسرے والد آپ کے استاد جنہوں نے آپ کو تعلیم دی،جاوید محمود شیخ میرے بچوں احمد اور فاطمہ کے نانا تھے، میری گڑیا فاطمہ اور احمد کے لیے اس پوری کائنات میں وہ واحد آنکھیں جن میں ان کو دیکھتے ہی محبت کی چمک آ جایا کرتی تھی اور وہ دلفریب مسکراہٹ جن میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر مؤجزن محسوس ہوتا تھا، اب ہم کبھی نہ دیکھ سکیں گے، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر جو وہ اکثر سناتے تھے

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہاۓ گراں مایہ کیا کیے

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔