بلاگ

امریکی صدر کے بعد اب بھارتی آرمی چیف

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد بھارتی آرمی چیف جنرل پین راوت بھی پاکستان کے خلاف میدان میں کود پڑے، فرماتے ہیں کہ سی پیک بھارت کی خومختاری کے لیے چیلنج ہے۔

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے خطے میں پراکسی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس سے بھارت کو ہی نہیں بلکہ چین سمیت جنوبی و مشرقی ایشیاء کے دیگر ممالک کو بھی خطرہ ہے۔

مبصرین کے مطابق بھارتی آرمی چیف نے یہ بیان دے کر ایک تیر میں کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے، خطرہ ہمارے سروں پر آ پہنچا ہے، ابھی امریکی صدر کی اس خطے سے متعلق پالیسی نے ہی سب کو ہلا دیا ہے گو ہم سخت بیانات دے کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں لیکن معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ہے،بھارت کے آرمی چیف کا بیان اسی سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔

گریٹ گیم کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے، بہت جلد پاکستانیوں کو پاناما پاناما سب بھول جائے گا، کرپشن کی کہانیاں بھی بڑی چھوٹی محسوس ہونے لگیں گی، ہم اگر فرشتوں کی کسی فوج کے انتظار میں ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ 16 دسمبر 1971 ءکو جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو ایک بھی فرشتہ ہماری مدد کو نہیں آیا۔

سن 1492ء میں سقوط غرناطہ ہوا1799ء میں جب سلطان ٹیپو شہید ہوئے1757ء کی جنگ پلاسی میں پہلا مغل صوبہ غداری کی وجہ سے ہاتھ سے گیا، جب بغداد میں لاکھوں مسلمان روند دیے گئے،1857ء میں جب مغل شہنشاہ کو اس کے بیٹوں کے سر کاٹ کر پیش کیے گئے ان سب واقعات میں غداروں کا اور ہماری نادانیوں کا بڑا اہم کردار ہے، کوئی غیبی مدد نہیں آئی۔

نسیم حجازی کے ناولوں کے متاثرین سمجھتے ہیں کہ بس امریکا ٹوٹنے والا ہے، بس انڈیا کا آخری وقت آ گیا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے اللہ صرف ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، جس وقت ہمیں ایک ہونا چاہیے تھا، اس وقت ہمارے لیڈر قوم کو تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔

جس وقت حکومت کو اپنی خارجہ امور پر توجہ مرکوز کرنی تھی اس وقت دھرنے دیے جا رہے تھے، جس وقت سی پیک پر قوم کو ایک ہونا تھا، میڈیا پر چین کے خلاف زہرہلا پروپیگنڈہ جاری تھا، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی صفوں سے غداروں کو تلاش کریں اور ہوش کے ناخن لیں۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔