31 اگست ، 2017
بچپن میں کراچی کا تصور گویا ایسا تھا جیسے خوابوں کا کوئی شہر ہو، اس کی سب سے بڑی نسبت تو قائد کے شہر کے حوالے سے تھی، ہم لاہور والے بھی کراچی کے حوالے سے دل میں حسرت رکھتے تھے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر جو کبھی روشنیوں سے جگمگاتا تھا جس کی ترقی اور طرز معاشرت کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ نااہل حکومتوں کی بے لگام پالیسوں کی وجہ سے آج اپنی تاریخ کے بدترین بحرانوں سے گزر رہا ہے، شہر میں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں، بجلی کے حوالے سے کوئی والی وارث ہی نہیں ہے، صاف پانی کا تصور گویا الف لیلیٰ کی داستان لگتا ہے۔
نوے کی دہائی سے کراچی شہر پر گویا بدقسمتی آسیب کی طرح مسلط ہے،کچھ عرصہ پہلے تک یہاں اندھیرے کا راج تھا، کوئی علاقہ محفوظ نہ تھا، لاہور والے جو کبھی کراچی پر رشک کرتے تھے اب اس سکی حالت سن کر کڑھتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے قائد کا شہر ہے، اس کی نسبت ہی بہت قابل احترام اور محبت بھری ہے۔
مجھے یاد ہے کئی برس پہلے جب مصری شاہ کے موریا پل پر شہباز شریف آدھی رات کو ایم ڈی واسا، چیف سیکریٹری اور دوسرے اعلیٰ حکام کے ساتھ تین فٹ پانی میں کھڑے تھے، بڑے بڑے افسران وزیر اعلیٰ کے غصے سے لرز رہے تھے، بارش تو رحمت ہوتی ہے لیکن ہم انسان اپنی نادانیوں سے اسے زحمت بنا دیتے ہیں، اس وقت میرے قائد کا شہر،وطن عزیز کا پہلا دارالحکومت پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سڑکیں دریاؤں کا منظر پیش کر رہی ہیں، گلیاں ندی نالے بنی ہوئی ہیں، نشیبی علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہو چکا ہے، بجلی کی صورتحال کا نہ پوچھیے کبھی آ رہی ہے کبھی جا رہی ہے، شہر میں معصوم بچوں سمیت اب تک 13بے گناہ پاکستانی بارش کے نتیجے میں کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات کی نظر ہو کر اپنی زندگی سے محروم ہو چکے ہیں فوج شہریوں کی مدد کے لیے آ چکی ہے اوربھرپور تعاون کر رہی ہے،شہر کے مئیر نے ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں کہ فی الحال کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی نوید سنا دی ہے جس سے سہمے ہوئے مزید سہم گئے ہیں،ہم 2017ء میں جی رہے ہیں، آزادی کے 70سال بعد بھی ہم اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں دینے سے بھی قاصر ہیں، ہمیں اب اپنی اداؤں پر غور کرنا ہو گا جو لوگ ہمارے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں ہم سب ان کو جانتے ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں۔
اگر آج کراچی کا یہ حال ہے تو اس سے ہم اس ملک کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، ہم نے 70برس میں کیا حاصل کیا ہے،صاف پانی تک میسر نہیں ہے.، تحفظ حاصل نہیں، ادویات تک اصل نہیں، اسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں، ٹرانسپورٹ بہتر نہیں، آخر ہم کب سوچیں گے، حکومت تو ماں باپ کی طرح ہوتی ہے خواہ وہ وفاقی ہو یا صوبائی، آخر کب تک ہم یہ سب برداشت کرتے رہیں گے۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔