09 ستمبر ، 2017
کراچی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے دہشت ناک سلسلے کا آغاز 17 سال پہلے تب ہوا جب مشرف دور میں امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی۔
اس کے بعد القاعدہ، تحریک طالبان، جنداللہ، اور لشکر جھنگوی سے لے کراب نئی ابھرنے والی انصار الشریعہ تک، ایسی کئی کالعدم تنظیمیں ہیں جن کے ہائی پروفائل دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے۔
جیو نیوز کے نمائندہ طلحہ ہاشمی کے مطابق کراچی میں دہشتگردی کا سلسلہ سن 2000 کے اوائل سے شروع ہوا۔ پہلے امریکن قونصلیٹ اور پھر شیرٹن بم دھماکے کیے گئے۔
2002 میں دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات امریکی صحافی ڈینیل پرل کا اغوا اور پھر قتل تھا۔ اس کا مرکزی دہشت گرد شیخ عمر لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آیاتھا۔ اسی نے اغوا کا منصوبہ بنایا اور اسی نے ڈینیل پرل کو موت کے گھاٹ اتارا۔
2004 میں کور کمانڈر کراچی کے قافلے پر کالعدم جند اللہ کے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور اس تنظیم کے تقریباً تمام ہی دہشت گرد کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے جب کہ ان کا تعلق ایک مذہبی جماعت کی طلبہ تنظیم سے بھی رہ چکا تھا۔
کراچی میں ہی 2005 میں القاعدہ کا آئی ٹی ایکسپرٹ نعیم صبور خان عرف ابو طلحہ پکڑا گیا، اس پر امریکی حکومت نے 50لاکھ ڈالر انعام رکھا تھا۔
لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے عظیم شیخ کا تعلق حیدر آباد سے تھا، وہ جسٹس مقبول باقر کے گھر پر حملے سمیت دیگر کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، وہ اپنے ساتھی فرحان کے ہمراہ 2013 میں گرفتار ہوا اور اِس وقت جیل میں ہے ،وہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹرانکس انجینئر ہے۔
سانحہ صفورہ میں ملوث دہشت گرد سعد عزیز اور علی رحمان عرف ٹونا بھی اعلیٰ یافتہ تھے۔ یہ دونوں داعش کے ساتھ منسلک رہے اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں 2015 میں پکڑے گئے جب کہ گزشتہ سال منگھوپیر میں مقابلے کے بعد مارا گیا داعش کا دہشت گرد کامران عرف گجر بھی گریجویٹ تھا۔
اس سال گلستان جوہر میں ڈی ایس پی ٹریفک فیض محمد شگری پر حملے میں ملوث دہشتگرد حذیفہ آئی ٹی ایکسپرٹ تھا۔ وہ منگھوپیر میں حساس ادارے اور پولیس سے مقابلے میں مارا گیا جب کہ اس کا ایک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ساتھی اس وقت افغانستان میں ہے۔
رواں سال سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخواجہ اظہار الحسن، ریٹائرڈ لیفٹنٹ کرنل طاہر ناگی، ڈی ایس پی ٹریفک کریم آباد، سائٹ، بہادر آباد میں پولیس اہلکاروں اور گلستان جوہر میں پولیس فاونڈیشن کے گارڈ کے قتل میں ملوث انصار الشریعہ کے دہشت گرد بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
اس کے سربراہ سے لے کر ٹارگٹ کلرز تک تمام ہی برطانیہ، این ای ڈی ، اور کراچی یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے کے علاوہ ٹیکنالوجی کے بھی ماہر ہیں۔