09 ستمبر ، 2017
بدقسمت ہیں وہ لوگ جو عقلی موشگافیوں میں رب کو تلاش کرتے ہیں، رب عقل سے نہیں عشق سے ملتا ہے، محبت سے ملتا ہے، ادب سے ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا ساری مخلوقات کو چیلنج ہے کہ دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
ہم تو عقل سے اپنے ماں باپ کی محبت کی کھوج کریں تو ان کا احترام چھوڑ دیں کیونکہ عقل کی عینک سے محبت کے رشتے نہیں دیکھے جا سکتے، جب ہماری والدہ نے اپنی چاہت سے ہمیں خود گیلے رہ کر ہمیں خشک جگہ سلایا تھا تو اُن کی اِن لمحوں کی تکلیف کو ہم عقل کی عینک سے نہیں دیکھ سکیں گے، عقل کہے گی کہ ماں ہمیں پیمپر پہنا دیتیں تو اچھا تھا، اس تکلیف کو محسوس کرنے کے لیے جس محبت اور گداز کی ضرورت ہے وہ عقل کے پاس نہیں۔
کسی تجربہ گاہ میں ایک سائنس دان تتلی کے لاروے پر تجربات کر رہا تھا، سائنس کے طلب علم اسے زیادہ بہتر سمجھ سکیں گے ،لاروا تتلی بننے کے آخری مرحلے میں تھا، کچھ دیر میں لاروے نے ایک مکمل تتلی بن جانا تھا، سائنس دان نے مشاہدہ کیا کہ لاروے میں ایک سوراخ بن گیا ہے اور یہ سوراخ بہت چھوٹا ہے اتنا کہ تتلی کے لیے اس سے باہر آنا ممکن نہیں، سائنس دان مشاہدہ کر رہا تھا کیونکہ سائنس مشاہدے کو درست مانتی ہے یعنی عقل کی سنتی ہے۔
تتلی خوب زرو لگاتے ہوئے اس سوراخ سے باہر آنے کی کوشش کر رہی تھی ،سائنس دان کے دل میں تتلی کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس سوراخ کو ذرا بڑا کر دوں تاکہ تتلی آسانی سے باہر آ سکے، اس نے ایسا ہی کیا، ایک آلے کی مدد سے اس نے سوراخ کو اتنا کھلا کر دیا کہ تتلی آسانی سے باہر آسکے، اس کی توقع کے عین مطابق تتلی بڑی آسانی سے باہر آ گئی، سائنس دان بہت خوش ہوا کہ اس نے تتلی کی مدد کی لیکن اس کی یہ خوشی جلد پریشانی میں بدل گئی کیونکہ اس نے دیکھا کہ تتلی باوجود کوشش کے اڑ نہیں پا رہی تھی، حتیٰ کہ اس کے پر تک پوری طرح کھل نہیں پا رہے تھے، بظاہر کوئی ایسی عقلی توجیح بھی نہیں مل رہی تھی کہ تتلی آخر اڑ کیوں نہیں پا رہی اور اس کی اس معذوری کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
پریشانی کے عالم میں وہ اس تتلی کو اپنے سینئر استاد کے پاس لے گیا اور سارا واقعہ انہیں سنایا، دانا استاد نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ جب تتلی خوب زور لگاتے ہوئے اس سوراخ سے باہر آنے کی کوشش میں مصروف تھی تو آپ نہیں جانتے تھے کہ ایسا کرنا اس کے لیے خالق نے ضروری رکھا تھا کیونکہ اسی بائیولوجیکل عمل کے دوران تتلی اڑنے کے قابل ہو جاتی ہے، لیکن آپ نے اپنی نادانی اور کم علم کی وجہ سے اسے عمر بھر کی معذوری دے دی، ہم ابھی بہت کچھ نہیں جانتے۔
کائنات کی تسخیر میں لگے ہیں لیکن ہمارے اخلاق لاکھوں برس پہلے کے جنگلیوں کو بھی شرمانے پر مجبور کر رہے ہیں، ہم عقل پر چلتے چلتے محبت، اخلاص، شرم و حیا، مروت، وضع داری اور برداشت سے محروم ہو چکے ہیں، دانائے راز علامہ اقبال کہتے ہیں کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اگر ہم اپنے خالق کا تصور کرلیں جس کے لیے تمام تعریفیں ہیں تو کرپشن، لوٹ مار، بے حیائی چوری، سنگدلی، رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری، جھوٹی گواہی، بد دیانتی، دل آزاری، ملاوٹ اور دیگر بے شرمیوں سے بچ جائیں گے، نام صرف اللہ کا رہ جانا ہے کیونکہ سکندر، دارا، سیزر، اکبر و جہانگیر سب خالی ہاتھ سب سے بڑے شہنشاہ کے حضور اپنے فیصلے کے منتظر ہیں، کیا ہم سب سکندر و دارا سے بڑھ کر ہیں؟ پروردگار کی رحمت کا دھیان کریں جس کی رحمت نے ہر چیز کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔