15 ستمبر ، 2017
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ لاہور کے حلقہ این اے 120 کا نتیجہ ملکی سیاست کی پیراڈائم شفٹ کر سکتا ہے۔ابلاغ عامہ کے استاد کی حیثیت سے میں نے یونیورسٹی کے طالب علموں سے اس حلقے کے سروے کروائے۔متعدد مرتبہ خود بھی اس حلقے میں گیا ۔ویسے بھی بچپن اور لڑکپن اس حلقے میں ہی گزرا ہے۔
میرے طالب علموں نے مختلف وارڈز سے ڈیٹا اکٹھا کیا ،جس کے مطابق یہ سیٹ مسلم لیگ نواز 62 فیصد ووٹوں سے جیت سکتی ہے۔ سوشل میڈیا سرویز کے برعکس پی ٹی آئی کسی قسم کا اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
بعض حکومت مخالف اخبارات اور چینلز نے سول خفیہ اداروں کے حوالے سے ایک مضحکہ انگیز رپورٹ دی ہے، جس کو پڑھ کر بس مسکراتا ہی رہا کیونکہ میڈیا کی ایجنڈا سیٹنگ اور گیٹ کیپنگ تھیوریوں کا بڑا خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔
میڈیا میں پروپیگنڈے کی کم و بیش ساری تکنیکوں کو دو ہفتے کے دوران استعمال کیا گیا ہے۔جناب عمران خان نے اس حلقے کے فیصلے کوپاکستان کے مستقبل کا فیصلہ قرار دیا ہے۔ایک بیان ایسا بھی آیا ہے کہ اس حلقے کا فیصلہ بتائے گا کہ قوم سپریم کورٹ کے ساتھ ہے یا نہیں۔
جناب عمران خان کے بیانات سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جذباتیت لیے ہوئے ہیں لیکن اگر ہم ان کا سائیکو اینالسسز کریں تو بہت سی پرتیں کھل جاتی ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2014 ءکی طرح کپتان کو پھر کوئی امید دلائی گئی ہے اسی لیے ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
طالب علموں سے کروائے گئےسروے میں ایک سوال یہ بھی ڈالا گیا تھا کہ کیا اس حلقے کے نتا ئج تبدیل کئے جا سکتے ہیں، جس سے ن لیگ ہار جائے یا ووٹ مارجن کم ہو جائے تو 85 فیصد بزرگوں اور 56 فیصد نوجوانوں نے ہاں میں جواب دیا۔
مشرف دور میں ہمارے ایک کرنل دوست ملنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ لوگ ہم سے چڑنا شروع ہو گئے اس لیے ہم یونیفارم میں نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔
جنرل کیانی اور راحیل شریف کے ادوار میں صورتحال میں بہت بہتری آئی۔میں گذشتہ 23 برس سے صحافت کی وادی پرخار کا مسافر ہوں۔ میرے والد کا شمار ملک کے سینئر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے اس لحاظ سے میں پیدائشی صحافی بھی ہوں۔یہ سطور لکھنے کا مقصد اپنی تعریف کرنا ہرگز نہیں ہے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں کھمبیوں کی طرح نمودار ہونے والے بونے صحافیوں کو نہ تو اس ملک کی تاریخ کا علم ہے اور نہ ہی لوگوں کے رویوں پر ان کی کوئی اسٹڈی ہے۔
ان کے پروگرام سارے کے سارے مخصوص ایجنڈا پر چل رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ پھر مقتدر حلقوں سے غیر مطمئن ہو رہے ہیں اور میں نے زندہ دلان لاہور کی باتوں اور انداز میں یہ ناراضی محسوس کی ہے۔
گیلپ سروے کے مطابق بھی مسلم لیگ ن یہ نشست 53 فیصد سے جیت جائے گی اور تحریک انصاف 29 فیصد ووٹ حاصل کر پائے گی۔ایک اور سروے کے مطابق ن لیگ 70 فیصد اور پی ٹی آئی 23 فیصد ووٹ حاصل کرے گی۔
این اے 120 میں انتخابات کے اعلان کے اگلے دن بھی میں نے ایک سروے کیا تھا ۔یہ اس حوالے سے پہلا سروے تھا جس کا متعدد حلقوں میں حوالہ بھی دیا گیا اور آج انتخابی مہم کے آخری روز کے سروے میں بھی یہی کہوں گا کہ جو لوگ کسی اپ سیٹ کے منتظر ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔یہ مسلم لیگ ن کی نشست تھی،ہے اور رہے گی۔لوگ نواز شریف سے پیار کرتے ہیں اور پیار کوئی وجہ نہیں دیکھتا ۔
ویسے بھی لوگ اب باشعور ہو چکے ہیں انہیں اندازا ہو گیا ہے کہ کون کس کے اشارے پر چل رہا ہے۔میری رائے میں اب ہمیںپچھلے انتخابات سے باہر نکل آنا چاہیے۔دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔دنیا کا بادشاہ ٹرمپ آپ کو للکار رہا ہے اور آپ کے دونوں ہمسایہ ملک بھارت اور افغانستان اس کے اتحادی ہیں۔فرشتے تو مدد کو آئیں گے نہیں ہمیں اپنی اداؤں پر خود ہی ذرا نہیں بلکہ کافی غور کرنا ہو گا۔ بہ زبان شاعر :
آپ خود اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔