کسی اپ سیٹ کے منتظر بہت اپ سیٹ ہیں

ہم بھی کیا لوگ ہیں، آسمان پر لکھی حقیقت کو نہیں پڑھتے اور خوش گمانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہم عملی طور پر کچھ نہیں کرتے اور کسی غیبی مدد کے منتظر رہتے ہیں.جب این اے 120میں الیکشن کا اعلان ہوا اس وقت بھی میں نے اپنے کالم 'این اے 120 چند زمینی حقائق میں لکھا تھا کہ یہ سیٹ مسلم لیگ ن کی ہے اور رہے گی۔

میری اس رپورٹ کا حوالہ ایک  بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے بھی دیا۔ دو روز قبل بھی جب میں نے اس علاقے کا دورہ کیا تو اپنی رپورٹ میں یہی کہا کہ جو لوگ کسی اپ سیٹ کے منتظر ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔یہ سیٹ مسلم لیگ ن کی تھی ہے اور رہے گی۔

لیکن افسوس مفاد پرست سیاست دان اس الیکشن کو گویا حق و باطل کی جنگ قرار دیے بیٹھے تھے۔جھوٹی امیدیں جنھوں نے دلائیں وہ بھی بہت اپ سیٹ ہیں اور جن کو دلائیں گئیں وہ بھی بہت اپ سیٹ ہیں۔

گزشتہ شام پنجاب یونیورسٹی ایگزیکٹو کلب میں سینئر دوستوں کے ساتھ ایک عشائیہ میں تھا۔ احباب میں تقریبا سارے نامی گرامی بیورو کریٹس، پروفیسرز اور اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر تھے۔یہ انیس بیس احباب ایک طرف تھے اور میں اکیلا ایک طرف۔

اپنے اپنے مضامین کے پی ایچ ڈی پروفیسرز اس حقیقت کو سمجھنے سےقاصر تھے کہ میڈیا کی ایجنڈا سیٹنگ اور دیگر موشگافیوں سے انہیں کس طرح" ماموں" بنایا جاتا ہے، کس طرح رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا ہے۔ان تمام دانشور حضرات کی معلومات کا ماخذ وہی ذرائع تھے جنھیں ہمیشہ کنٹرول کیا جاتا ہےاور پروپیگنڈہ کی مختلف تکنیکوں کی مدد سے اسپن کیا جاتا ہے۔

میں جانتا ہوں میرے یہ تمام بزرگ بھی آج بہت اپ سیٹ ہونگے۔گو ہمیں اندازا تھا کہ جیت کا مارجن کم کیا جائے گا اور اس میں مقتدر کامیاب بھی رہے۔کپتان اور ان کے ساتھیوں کو بیانات دینے کا جواز تو فراہم کر دیا گیا کہ کم مارجن سے جیت دراصل ن لیگ کی ہار ہے، لیکن جناب ذرا اپنے بیانات کی روشنی میں اپنے ووٹوں کا حال بھی ملاحظہ فرمائیے۔

سن2013 میں خان صاحب کی پارٹی نے یہاں سے 52321 ووٹ لیے تھے لیکن اب 47099 ووٹ حاصل کیے ہیں اور یہی پی ٹی آئی کی اخلاقی اور نفسیاتی شکست ہے، کیونکہ کپتان نے اپنے بیان میں اس حلقے کے رزلٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید قرار دیا تھا اور فیصلہ زندہ دلان لاہور کی فہم و فراست پر چھوڑا تھا تو جناب اس طرح تو لاہور کے لوگوں نے اپنا فیصلہ تو سنا دیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ بلاول بھٹو کی پر جوش تقریروں اور نعروں نے زندہ دلان لاہور کو متاثر نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست کا جنازہ پنجاب سے نکل چکا ہے۔ جناب زرداری سیاست کرنا تو خوب جانتے ہیں لیکن محبت کرنا نہیں جانتے۔

این اے 120 میں محبت کی جیت ہوئی ہے لوگوں کی نواز شریف سے محبت نےبیگم کلثوم نواز کو فتح یاب کیا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ محبت وجہ نہیں دیکھتی۔ جناب نواز شریف نے لندن سے اپنے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ ہمارے کارکنوں کو غائب کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بھی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم سب تحریک انصاف کے انداز سیاست سے آگاہ ہیں اگر پی ٹی آئی کامیاب ہو جاتی تو کہا جاتا کہ عوام نے نواز شریف کی سیاست کو دفن کر دیا ہے اور اب ہار گئے ہیں تو وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے وسائل کا حوالہ دے کر اپنے کارکنوں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔ جانتا تو سارا زمانہ ہے کہ ن لیگ کو ہروانے کے

لیے کن کن طاقتوں نے کیا کیا نہیں کیا لیکن تحریک انصاف کے ہمارے بھولے بھالے دوستوں کو اسکی کوئی خبر نہیں ہے۔ اب ہم لاہوریوں کو سوشل میڈیا پر لتاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ذرا خیال رہے ہم لاہوریوں نے آپ کو اور آپ کے ان داتاؤں کو مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کی قرار داد سے لے کر مادر ملت کی انتخابی مہم تک پیپلز پارٹی کے لاہور میں آغاز سے لے کر اس کی عبرت ناک شکست تک اسلامی سربراہی کانفرنس سے لے کر واجپائی کے مینار پاکستان آنے تک ہم لاہوریوں کا ہی ایک خاص کردار رہا ہے۔

لیڈرز تہذیب سکھاتے ہیں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ مرزا نوشہ کے اس شعر پر آپ سے اجازت چاہوں گا۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

 بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر  پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں, حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔