19 ستمبر ، 2017
کراچی: چار رکنی میڈیکل بورڈ نے تصدیق کی ہے کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 6 میں گھریلو ملازمہ فاطمہ کو قتل کیا گیا۔
17 سالہ ملازمہ کی لاش ہفتے کے روز کراچی کے علاقے ڈیفنس سے برآمد ہوئی تھی جبکہ ان کو کام پر رکھنے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ فاطمہ نے خودکشی کی ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ فاطمہ نے کمرے میں لگے پنکھے سے لٹک کر جان دی تاہم تفتیش کاروں نے اس دعویٰ پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔
ملازمہ کے اہلخانہ نے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاطمہ خودکشی نہیں کرسکتی۔
مقتولہ کے اہل خانہ کے مطابق فاطمہ کے قتل میں بنگلے کا مالک سید حسن مظہر اور انکی اہلیہ ملوث ہیں۔
ایم ایل او ڈاکٹر قرار عباسی کے مطابق لاش کے پوسٹ مارٹم سے خود کشی ظاہر نہیں ہوتی، لڑکی کے چہرے، ہونٹ اور جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔
سیکریٹری ہیلتھ کی ہدایت پر بنائے گئے میڈیکل بورڈ میں پروفیسر ڈاکٹر فرحت مرزا، پولیس سرجن اعجاز کھوکھر اور سینئر لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر سمعیہ بھی شامل تھے۔
ڈاکٹرز نے ناقص تحقیقات پر تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کیا اور جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کا بھی کہا ہے۔
اس سے قبل جناح اسپتال میں کیے جانے والے پوسٹ مارٹم کو بھی میڈیکل بورڈ نے غلط قرار دے دیا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جائے وقوع پر پہنچنے کے بعد لاش بالائی منزل سے نیچے لائی گئی تھی اور انہیں صرف پنکھے پر لٹکا ایک دوپٹہ دیکھایا گیا۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق لڑکی کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے۔
ڈیفنس فیز 6 میں فاطمہ ڈھائی سال سے حسن مظہر کے گھر ملازمت کررہی تھی۔