گریٹ گیم کے پاکستان پر پھیلتے سائے

گریٹ گیم تیزی کے ساتھ اپنے مراحل طے کر رہی ہے۔ پاکستان کو ہر محاذ پر پسپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ امریکی صدر طاقت کے نشے میں چور شمالی کوریا کو فنا کرنے کی دھمکی دے رہا ہےجس سے اس کے آئندہ کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، لیکن ہم بغداد، غرناطہ اور دہلی کے عاقبت نا اندیش لوگوں کی طرح سطحی قسم کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔

دنیا کی واحد سپر پاور آپ کو دھمکی لگا چکی ہے، آپ کے دو پڑوسی اس کی جیب میں ہیں، آپ گویا سینڈ وچ کی سی پوزیشن میں ہیں لیکن ذرا اپنے قومی اخبارات کی شہ سرخیوں پر نظر ماریں یا فہم و فراست سے عاری اینکر نمائندوں کا اپنے اپنے پروگراموں پر رقص ملاحظہ فرمائیں تو صورت حال کی سنگینی کا مزید احساس ہوتا ہے۔

جینوا کی دیواروں پر چند روز پہلے پاکستان کے غداروں کی طرف سے آزاد بلوچستان کے بڑے بڑے پوسٹرز لگا کر دنیا بھر کے میڈیا کو اس وقت اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب اقوام متحدہ کا اجلاس جاری ہے۔

دنیا بھر کے میڈیا پر اس نازک موقع پر اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔کوئی شک ہی نہیں ہے اس کے پیچھے وہ تمام ممالک شامل ہیں جو سی پیک کے خلاف ہیں اور مستقبل کے پاکستان کی ترقی ان کو ہضم نہیں ہو رہی۔

امریکا اور بھارت اس کھیل میں سر فہرست ہیں۔جوں جوں گریٹ گیم مرحلہ وار آگے بڑھ رہی ہے پاکستان پر خطرات کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اکثریت کو اس کا احساس ہی نہیں ہے اور بکی ہوئی لیڈر شپ نے لوگوں کو سیاسی گرما گرمی کے بخار میں مبتلا کر رکھا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاناما ایشو بھی اسی گریٹ گیم کا ایک مرحلہ تھا جو منصوبے کے عین مطابق طے ہوا۔ جمہوریت کو برا بھلا کہہ کر آمریت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اس حوالے سے نام نہاد تھنک ٹینک ایک نیا بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں جو آج کے جذباتی اور تاریخ سے بے خبر نوجوانوں کے لیے نیا ہے لیکن حقیقت میں 1958 سے پاکستان کے بھلکڑ عوام پر بڑی کامیابی سے آزمایا جاتا رہا ہے۔

ذرا غور کیجیے گا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت پر کب وار کیا گیا؟جب وہ بین الاقوامی پالیسی سازوں کو ہضم کرنا مشکل ہو رہی تھی۔ آدھا پاکستان ہم گنوا چکے ہیں، وہ خطہ جہاں سے آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اس کا نام آج پاکستان نہیں بلکہ بنگلہ دیش ہے۔

ہم نے محبت سے نہیں بوٹوں سے ان پر حکومت کی وہ آج ہم سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ پاکستان سے کئی دہائیاں پہلے پیار کرنے والوں کو پھانسی دے رہے ہیں۔ آخر ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے ہم کون لوگ ہیں۔ اب تو ہمارے پاس گنوانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔

چند مٹھی بھر غدار دنیا بھر کے میڈیا پر ہمارا تماشہ لگوا رہے ہیں اور ہم آلو ٹماٹر پیاز کی قیمتوں کو رو رہے ہیں یا عدالتی بحثوں میں لگے ہیں۔ پاکستان کے تمام اہم اداروں کو جن میں پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور عدلیہ شامل ہیں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کو بھی اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اقبال کے بقول

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر  پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔