25 اکتوبر ، 2017
امرتسر سے دلی جاتے ہوئے راستے میں لدھیانہ پڑتا ہے۔ شتابدی ٹرین دو منٹ کے لیے رُکتی ہے تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ اِدھراُدھر آتے جاتے مسافروں میں کوئی شناسا نہیں دِکھتا۔ ٹرین ذرا آگے بڑھتی ہے تو گورنمنٹ کالج دکھائی دیتا ہے لیکن لدھیانہ کالج جہاں ایک شاعر کی جوانی کے چار سال دفن ہیں، دکھائی نہیں پڑتا۔تصورات کی پرچھائیاں اُبھرتی ہیں جن میں اُس شاعر کی شبیہہ صاف پہچانی جا سکتی ہے۔
ریل گاڑی کی رفتار بڑھتی جاتی ہے اورساتھ ہی ماضی کے جھروکوں سے ساحر لدھیانوی کی چمکتی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں اور سگریٹ کے مرغولوں سے اُبھرتا ہوا چہرہ بہت کچھ یاد دلانے لگتاہے۔
یاد آتا ہے کہ یہی لدھیانہ کالج تھا جہاں سے ساحر کو محبت کی پاداش میں نکال دیا گیا تھا۔بچپن میں اپنی ماں کے ساتھ گھر سے دربہ در ہونے والا بچہ جب مادرِ علمی سے بھی نکال دیا گیا تو اُس کی اگلی منزل راجدھانی دلی نہیں تھی ۔
وہ امرتسر سے ہوتا ہوا لاہور آگیا اور یہاں اُس وقت کے مقبول ترین ادبی رسالے ’’ادب لطیف‘‘ کا ایڈیٹر بن گیا۔
دورِ ایوبی اپنے جوبن پر تھا۔ساحر نے یہاں کے حالات دیکھے تو اس کے اندر کا باغی شاعر جاگ اُٹھا۔زیادہ دیر خاموش نہ رہ سکا اور لکھ دیا۔
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
مخالفین کو موقع مل گیا۔ساحر کو ڈرایا دھمکایا کہ تم ایسے شعر لکھنے کی پاداش میں دھر لیے جاو گے۔غنیمت اسی میں ہے کہ واپس ہندوستان چلے جاو۔
ساحرنے رختِ سفر باندھا اورلدھیانہ سے ہوتا ہوا بمبئی کی فلم نگری جا پہنچا۔قسمت کی دیوی مہربان تھی ، جلد ہی اُسے ایک گیت نگار کے طور پر کام بھی ملنے لگا اور اُس کانام بھی بننے لگا۔ پھر کیا تھاانڈسٹری میں ساحر لدھیانوی کا سکہ خوب چلنے لگا۔ساحر سے پہلے فلمی گیتوں پرشاعر کے بجائےجن اداکاروں پر گانا فلمایا جاتا تھا توانہیں کا نام آتا تھا۔
ساحر نے اس ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اورکامیابی حاصل کی۔ساحر کی کوششوں سے پردہ سمیں پر اب گیت نگاروں کا نام بھی چمکنے لگا۔
ہر شاعر کی طرح ساحر لدھیانوی بھی بہت زودرنج تھا۔ایک شام اپنی دوست امریتا پریتم اورامروز کے ساتھ بیٹھا تھا، شام گزاری کے اسباب بہم تھے۔محفل چلتی رہی اور جب وہ دونوں اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے تو ساحر نے یہ نظم لکھ کر امریتا کو تڑپا دیا۔
محفل سے اُٹھ جانے والو، تم لوگوں پر کیا الزام
تم آباد گھروں کے باسی، میں آوارہ اور بدنام
میرے ساتھی خالی جام
لتامنگیشکر سے شکررنجی ہوئی تو یہ شرط لگادی کہ گانا جب لکھوں گا کہ جب میرا معاوضہ سے لتا سے علامتی طورپر ہی سہی ایک روپیہ زیادہ ہوگا۔ نہ صرف فلم سازوں کو اُن کی یہ شرط ماننا پڑی بلکہ لتا کو ابھی اپنی ناراضی ختم کر کے ساحر کے لکھے ہوئے گیت گانے پڑے۔
ترقی پسندادیب رفیق چوہدری بتایا کرتے تھے کہ فلم انڈسٹری کی مقبول اداکارائیں ساحرلدھیانوی کے سحر میں گرفتار تھیں لیکن ساحر اپنی سیمابی کیفیت کے باعث کہیں رُکتا نہیں تھا۔ایک معروف اداکارہ کے ساتھ اُس کاعشق چل رہا تھاکہ ایک دن اچانک ’’چلواک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘ جیسی نظم لکھ کر سنا دی۔
رفیق چوہدری نے اُس ادکارہ کو یہ نظم سننے کے بعد زار و قطار روتے ہوئے دیکھا۔
ساحرنے محبت کی علامت ’’تاج محل‘‘ کے خلاف بھی نظم لکھی لیکن ان کی یہ نظم مودی کی طرح ماضی کی یادگاروں کو مٹانے کے لیے نہیں تھی بلکہ طبقاتی نظام کے خلاف ایک تواناآواز تھی ۔
ساحر لدھیانوی شاعرتھا، عاشق تھا، انقلابی تھا، باغی تھایا غصے سے بھرا ہوا ایک انسان ، جسے یہ محلوں ، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دُنیا کبھی راس نہیں آئی۔اور وہ 25اکتوبر1980ء کو یہی کہتاہوا اس دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
میرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمھاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
یہ کالم روزنامہ جنگ میں 25 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔