آف شور یا شیل کمپنیز کیا ہوتی ہیں؟

— فوٹو:فائل

پاناما لیکس کے بعد پیرا ڈائز پیپرز کے زریعے ایک بار پھر دولت مند اشرافیہ کے پیسوں کی لین دین کے معاملات سامنے آگئے ہیں جس میں شیل کمپنیز کا استعمال بھرپور طریقے سے کیا گیا۔

آف شور یا شیل کمپنیز ایسے انڈے کی مانند ہوتی ہیں جو بظاہر تو صحیح لگتا ہے  مگر اندر سے خالی ہوتا ہے، یعنی جب خول ٹوٹتا ہے تو انڈا خالی اور اسی طرح یہ کمپنیاں بھی جعلی نکلتی ہیں۔

ان کا کمپنیوں کا نہ مالک اصلی، نہ کوئی اصل دفتر اور نہ ہی کوئی ملازم ہوتا ہے بلکہ یہ کمپنیاں صرف کاغذات پر چلائی جاتی ہیں اور اصل مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔ 

شیل یا آف شور کمپنیز ایسے ممالک میں قائم کی جاتی ہیں جہاں ریگولیٹرز کمزور یا زیادہ پوچھ گچھ نہ کرتے ہوں اور مالیاتی رازداری بہت زیادہ ہو، ان جگہوں کو آف شور فنائنشل سینٹرز یا ٹیکس پناہ گاہیں کہا جاتا ہے۔

مثال کے طور سوئٹزرلینڈ، برٹش ورجن آئی لینڈ، مکاؤ اور پاناما وغیرہ۔

یاد رہے کہ شیل کمپنیوں کا استعمال قانونی طور پر بھی کیا جاتا ہے لیکن کئی افراد انہیں غیر قانونی کاموں جیسے ٹیکس دینے سے بچنے، غیر قانونی دولت چھپانے، رشوت دینے، فراڈ کرنے جبکہ دہشتگرد ، ان کے ہینڈلرز اور منشیات کے اسمگلرز پیسوں کی لین دین کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

شیل کمپنیز کے غیرقانونی استعمال کا ایک انکشاف امریکی یونیوسٹی کے معروف معیشت دان گیبرئیل زوک مین کے ذریعے بھی سامنے آیا جن کی تحقیقات کے مطابق 2014 میں عالمی مالیاتی دولت جو تقریباً 955 کھرب ڈالر تھی، اس کا 8 فیصد یعنی 76 کھرب ڈالر ٹیکس اتھاڑٹیز کی نظروں سے دور آف شور کمپنیز میں موجود تھا۔

ان 76 کھرب ڈالر میں سے 30 فیصد یعنی 23 کھرب ڈالر تو صرف ایک ملک یعنی سوئزرلینڈ میں موجود تھے جب کہ 53 کھرب ڈالرمختلف ٹیکس ہیون کہلائے جانیوالے علاقوں جیسے سنگاپور، کیمن اور برٹش ورجن آئرلینڈ جیسے جزائر میں چُھپایا گیا تھا اور اس 76 کھرب ڈالر پر اُمراء نے انکم ٹیکس کی مد 130 ارب ڈالر ہڑپ کیے۔

انٹرنیٹ پر شیل یا آف شور کمپنیاں صرف 10منٹ میں ایک کریڈیٹ کارڈ اور 2 ہزار ڈالر یعنی پاکستانی تقریباً 2 لاکھ 10 ہزار روپے دے کر کھولی جاسکتی ہیں۔

مزید خبریں :