Time 11 نومبر ، 2017
پاکستان

حدیبیہ پیپرملز پر اپیل کی سماعت کی وجہ بننے والے حقائق

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں 50 روز قبل شریف خاندان کے حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے نیب نے سماعت کی تاریخ مقرر کرنے کے لئے اپیل دائر کی تھی، اس کی تاریخ کا اب چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اس سوال کےایک روز بعد کہ عدالتوں کے باہر ججوں پر جو تنقید کی جارہی ہے کیا وہ حب الوطنی ہے، اعلان کر دیا گیا ہے۔

ٹاپ جج کی یہ آبزویشن برطرف وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے 28 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کے فیصلے پر شدید تنقید کے جواب میں ایک اشارے کے طور پر تھی۔

ایک تین رکنی بینچ جو پیر کے روز اپیل پر کاروائی شروع کرے گا، اس کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے ہیں جو چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج ہیںاور وہ پاناما کیس کا فیصلہ کرنے والے پانچ ججوں کے پینل کی سربراہی بھی کر رہے تھے۔ 

پاناما کیس میں 20 اپریل کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ان گنت مرتبہ ان کے لئے اعتماد نہ کرنے کا اظہار کوئی راز نہیں ہے۔ پاناما کیس کی طویل سماعت کے دوران حدیبیہ پیپر ملز کی ازسرنو تحقیقات کے حکم پر جسٹس کھوسہ کی رائے ان کے ریمارکس سے واضح ہو گئی تھی۔

نئی بینچ کے دیگر دونوں ججز، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم خان میاںخیل کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، جو پاناما پینل کا حصہ نہیں تھے۔ نیب کی جانب سے 20 ستمبر کو معزز عدالت میں اپیل جمع کرانے سے متعلق مخصوص حقائق پر نظر ڈالنا معلومات افزا ہوگا۔ 

ایک، 28 جولائی کے عدالت کے حتمی فیصلے میں نیب کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی جس میں اسے لاہور ہائی کورٹ کے 11 جولائی 2014 کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لئے کہا گیا ہو، لاہور ہائی کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کے متعلق ریفرنس ختم کر دیا تھا۔

اس کے بجائے فیصلے میں یہ اختیار نیب پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرے کیونکہ یہ حکم نامے کے الفاظ ’’اگر اور جب‘‘ سے واضح تھا۔ 28 جولائی کے فیصلے کے پیراگراف نمبر 12 میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے وکلا کی یہ دلیل کہ جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر ملز کے کیس کو دوبارہ کھول کر اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے جبکہ اس کے ریفرنس کو لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا، درست ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ جے آئی ٹی نے صرف اس سلسلے میں سفارشات کی ہیں جس سے سپریم کورٹ بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے۔

نیب کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین قمر زمان کو جسٹس کھوسہ کے پانچ رکنی بینچ کے کچھ ججوں کی جانب سے شدید خفگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے انہیں صاف صاف بتا دیا تھا کہ ان کا ادارہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنے پراسیکوٹر جنرل کی رائے کی بنیاد پر اپیل دائر نہیں کرے گا۔ 

اس پر ایک جج نے ریمارکس دیے تھے کہ نیب آج مر گیا ہے۔ 28 جولائی کے فیصلے میں چیلنج کرنے کے حکم کی ہدایت کی غیرموجودگی میں نیب نے اس سلسلے میں معزز عدالت سے رابطہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنے پرانے موقف پر قائم رہا تھا کہ کوئی اپیل دائر نہیں کی جائے گی۔

تاہم 28 جولائی کے فیصلے کے 52 دنوں کے بعد نیب پراسیکیوٹر جنرل نے اچانک 20 ستمبر کو معزز عدالت کے سامنے اپیل دائر کردی۔ عام طور پر رجسٹرار ایسی اپیل واپس کر دیتے ہیں جو زائد المعیاد ہوتی ہیں جو تین سال کے بعد دائر کی گئی ہوں لیکن اس کیس میں ایسا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا اور درخواست پر فوری سماعت کا حکم جاری کر دیا گیا۔ 

نیب کی جانب سے اپیل دائر کرنے سے ایک ہفتہ قبل اس اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ انسداد بدعنوانی کے ادارے پر شدید دباؤ ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف خاندان کے خلاف اپیل دائر کرے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’اس ہفتے کے اوائل میں اسلام آباد کے ایک دفتر میں ایک اجلاس منعقد ہو ا تھا جس میں نیب کے کچھ سینئر حکام کو مدعو کیا گیا تھا۔انہیں سرزنش کی گئی کہ نیب کیوں اپیل تیار نہیں کر رہی ہے۔ ملاقات کی دیگر تفصیلات اور مقام بشمول وہاں موجود لوگوں کے نام ظاہر نہیں کیے جارہے۔‘‘ 

نیب نے اس طرح کے کسی بھی دباؤ کی تردید کی لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ عدالت کے 28 جولائی کے فیصلے کے بعد اسے اپیل دائر کرنے میں 52 دن کیوں لگے۔ اپیل میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، ان کے بیٹے حمزہ، نواز شریف، ان کے مرحوم بھائی عباس شریف، ان کے بیٹے حسین، بیٹی مریم ، ان کی والدہ شمیم اختر اور عباس شریف کی بیوہ صبیحہ عباس کو ماخوذ کیا گیا ہے۔

اپنی اپیل میں نیب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے اور حدیبیہ پیپر ملز اسکینڈل میں جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آنے والی نئی شہادت کے پیش نظر ازسرنو تحقیقات کے لئے استدعا کی ہے۔ 

اس میں دلیل دی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ریفری جج لاہورہائی کورٹ کی فائنڈنگ کو ختم کرنے کے مجاز نہیں تھے جس میں نیب کو تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

مارچ 2000 میں نواز شریف کا نام احتساب عدالت میں دائر کردہ عبوری ریفرنس میں شامل نہیں تھا تاہم اس وقت کے نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول کی جانب سے منظور کردہ حتمی ریفرنس میں ان کا نام بھی شامل کر دیا گیا۔ 

حدیبیہ پیپر ملز کیس 25 اپریل 2000 کو اسحق ڈار کے اعترافی بیان کی بنیاد پر شروع کیا گیا تھا جب انہوں نے مبینہ طور پر مشکوک کھاتوں کے ذریعے شریف خاندان کی جانب سے 14 اعشاریہ 86 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ میں اپنے کردار کا اعتراف کیا تھا۔ ڈار نے ہمیشہ یہ دعوی کیا کہ ان سے یہ بیان جبرا لیا گیا تھا۔

یہ خبر 11 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔

مزید خبریں :