16 نومبر ، 2017
حکمراں جماعت کی جانب سے کوئی صوبائی اسمبلی، مثال کے طور پر خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے میں فائدے سے زیادہ خطرات مضمر ہیں جس کا مقصد یہ ہو کہ نصف سینیٹ کے انتخابات روک کر حکمراں مسلم لیگ (ن) کو ایوان بالا میں اکثریت سے محروم کرکے بحران کھڑا کیا جائے۔ یہ قیاس آرائیاں زور و شور سے جاری ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا آئندہ ہدف مسلم لیگ (ن) اور اس کے ساتھ سسٹم پر ضرب لگانا ہے ، ایک مذہبی گروپ کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا اور ناکہ بندی بھی جمہوریت کی گاڑی الٹنے کی کثیر الجہتی حکمت عملی کا حصہ ہے ، بدقسمتی سے اسی مذہبی گروہ کے ایک دھڑے نے جناح ایوانیو پر ہفتہ بھر سے دھرنا دیئے رکھا جو پرامن ختم ہوگیا۔
چار دن بعد دوسرے گروہ نے احتجاج شروع کر دیا ۔ لہٰذا نواز شریف کی معزولی کے باوجود وفاقی حکومت کو مفلوج کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ اس وقت ایوان بالا سینیٹ میں تحریک انصاف کے سات ارکان ہیں۔
مارچ 2018 میں صرف ایک رکن اعظم سواتی سینیٹ میں اپنی رکنیت سے ریٹائر ہو جائیں گے باقی 6 سینیٹرز کی رکنیت 2021 تک برقرار رہے گی ۔ مارچ 2018 میں خیبر پختونخوا اسمبلی برقرار رکھنے کا تحریک انصاف کو یہ بڑا فائدہ حاصل ہوگا کہ تحریک انصاف آئندہ مدت کیلئے اپنے مزید 5 سے 6 تک سینیٹرز منتخب کراسکے گی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے حکمراں اتحاد کو 70 ارکان ( 57 فیصد ) کی حمایت حاصل ہے جس میں 61 ارکان کا تعلق تحریک انصاف اور 7 کا جماعت اسلامی سے تعلق ہے ۔ دو ارکان آزاد ہیں۔
اسمبلی تحلیل کرنے میں بڑا خطرہ اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں موجودہ عددی برتری بھی شاید برقرار نہ رکھ سکے۔ عمران سمجھتے ہیں انہیں زیادہ نشستیں ملیں گی لیکن دیگر ان کی اس توقع سے اتفاق نہیں کرتے۔
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے عمران خان کی ہدایت کی صورت میں ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے آیا وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنے پارٹی قائد کی یہ بات مانیں گے ؟ کیونکہ وہ پہلے پی ٹی آئی ارکان کے ایوان سے استعفوں کی تجویز کی شدید مخالفت کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اتحادی اور حامی آزاد ارکان بھی اسمبلی توڑنے کی مخالفت کریں گے ، جبکہ اپوزیشن تو پہلے ہی سے مخالفت میں ہوگی۔
تیسرے صوبائی اسمبلی توڑنے کے اقدام کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔ چوتھے پرویز خٹک سینیٹ کیلئے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو منتخب کرانا چاہیں گے ۔ اس کے علاوہ پرویز خٹک کیلئے آئندہ وزارت اعلیٰ کا ملنا بھی یقینی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے اسمبلی تحلیل کئے جانے کے اقدام کو محسوس کرنے کے بعد اپوزیشن یقیناً ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے گی۔
سینیٹ انتخابات کیلئے قواعد کے اعتبار سے دو ہفتوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ چاہے وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیں یا گورنر ایوان تحلیل کردیں،آئین کے تحت نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کا طریقہ کار یکساں ہے ۔ نامزدگی سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہی ہوتی ہے ، آئینی ماہرین، سینیٹرز اور الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹریوں کی اس حوالے سے آرا متضاد ہیں۔
صف اول کے قانونی ماہر بیرسٹر وسیم سجاد نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ایک صوبائی اسمبلی قبل از وقت تحلیل کئے جانے کی صورت میں دیگر صوبائی اسمبلیوں کے ذریعہ سینیٹرز کے انتخاب میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، پھر تحلیل اسمبلی کے براہ راست انتخاب کے بعد اس صوبے سے سینیٹرز کا انتخاب ہوگا ، تاہم اس عرصہ میں ایوان بالا نامکمل اور معطل رہے گا ۔ دستور سازی کا عمل بھی نہیں ہو سکے گا ۔چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔
سینیٹ کے ایک رہنما نے بھی وسیم سجاد کے مذکورہ موقف سے اتفاق کیا اور کہا کہ نامکمل ایوان کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے ایک سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے کہا کہ نصف سینیٹ کیلئے انتخابات بیک ہونے چائیں تا کہ تمام وفاقی اکائیوں کی اس ایوان میں مساوی نمائندگی موجود ہو۔ ایک صوبائی اسمبلی تحلیل کئے جانے کی صورت سینیٹ انتخابات پھر ملتوی کرنے ہوں گے ۔ واضح رہے کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین دیگر 50 ارکان کے ساتھ اپنی معیاد کی تکمیل پر ریٹائر ہو جائیں گے ۔
یہ رپورٹ 16 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی