Time 17 نومبر ، 2017
پاکستان

سیہون دھماکا: سی ٹی ڈی رپورٹ میں نئے انکشافات سامنے آگئے

سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر خودکش دھماکے کی منصوبہ بندی ڈیرہ مراد جمالی میں ہوئی تھی۔

منصوبہ بندی داعش کے مارے گئے آپریشنل کمانڈر غلام مصطفیٰ عرف ڈاکٹر نے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتار نادر عرف مرشد کے ساتھ مل کر کی تھی۔

خود کش بمبار کو نادر ایک دن پہلے سیہون لایا اور شام ساڑھے 6 بجے جب مزار کی بجلی جاتی تھی اس وقت کی ریکی کر کے دھماکا کیا گیا۔

گرفتار دہشتگرد نے کوئٹہ میں بھی ایک مکان کرائے پر لیا تھا جہاں کسی سرکاری افسر کو اغوا کرنا تھا تاہم وہ منصوبہ پورا نہ ہوسکا۔

سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سیہون دھماکے کے الزام میں گرفتار دہشتگرد نادر عرف مرشد داعش کے مارے گئے امیر غلام مصطفیٰ مزاری عرف ڈاکٹر کا قریبی ساتھی ہے۔

غلام مصطفی مزاری مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مارا جاچکا ہے، وہ اس سے قبل کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم تحریک طالبان کے لیے کام کرچکا ہے۔

مصطفیٰ عرف ڈاکٹر کو سندھ، بلوچستان اور پنجاب کا داعش کا آپریشنل ہیڈ بنایا گیا تھا، سیہون دھماکے کی منصوبہ بندی مصطفیٰ عرف ڈاکٹر نے تیار کی تھی جبکہ گرفتار نادر عرف مرشد کا انتہائی اہم کردار ہے۔

دہشت گرد رابطوں کے لیے انتہائی محفوظ موبائل ایپلی کیشن "تھریما" استعمال کررہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق دھماکے کی منصوبہ بندی 14 فروری کو ڈیرہ مراد جمالی میں ہوئی تھی، میٹنگ میں مصطفیٰ عرف ڈاکٹر، نادر عرف مرشد، ذوالقرنین بنگلزئی، مبینہ خودکش بمبار برار بروہی اور تنویر نامی دہشتگرد بھی موجود تھے۔

نادر عرف مرشد کو مبینہ خودکش حملہ آور کو سیہون لے جانے اور ریکی کا ٹاسک دیا گیا، اس نے ایک دن روجھان مزاری میں مبینہ دہشت گرد سفیع اللہ کے گھر پر بھی گزارا۔

15 فروری کی صبح نادر عرف مرشد اور مبینہ خودکش بمبار پبلک ٹرانسپورٹ سے دوپہر میں سیہون پہنچے اور ریکی کے لیے شام میں درگاہ گئے۔

درگاہ پہنچنے پر ساڑھے 6 بجے لائٹ چلی گئی اور یہی وہ وقت تھا جب دھماکے کے وقت کو حتمی شکل دی گئی۔

لائٹ جانے اور اس کے اسباب کی کی نشاندہی سب سے پہلے جیونیوز نے کی تھی، دونوں ایک گھنٹے سے زائد وقت درگاہ میں موجود رہے جبکہ بعد میں قریبی گیسٹ ہاؤس میں ایک کمرہ کرائے پر لیا۔

رات میں مصطفیٰ عرف ڈاکٹر بھی سیہون پہنچا اور خود کش جیکٹ وہیں نادر اور برار بروہی کے حوالے کی، اگلے دن منصوبے کے مطابق شام ساڑھے 6 بجے مبینہ خودکش بمبار کو جیکٹ پہناکر روانہ کیا گیا اور اس نے دھماکا کیا۔

نادر عرف مرشد سیہون بس اسٹاپ پہنچا جہاں اس کا انتظار مصطفیٰ عرف ڈاکٹر کر رہے تھے اور وہ وہاں سے فرار ہوگئے۔

سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق دہشتگردوں نے اپریل 2017 میں کوئٹہ میں کسی سرکاری افسر کو اغواکرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا اور اس مقصد کے لیے نادر عرف مرشد نے کوئٹہ کے جان محمد روڈ پر مکان 62 ہزار روپے کے عیوض اپنے شناختی کارڈ بھی حاصل کیا تھا تاہم دہشتگردوں کے ایک ساتھی کے گرفتار ہونے کی وجہ سے وہ منصوبہ پورا نہیں ہوا تھا۔

مزید خبریں :