Time 21 نومبر ، 2017
کھیل

خدارا پاکستانیوں کو پاکستانی ہی رہنے دو !

باکسر محمد وسیم  آج کسی اور ملک کی نمائندگی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں—۔فائل فوٹو

پاکستان کی تاریخ ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جو کبھی ملک کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اُن پر ایسا وقت بھی آیا کہ انہوں نے ملک چھوڑنے کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ اسی عمل میں عافیت بھی محسوس کی۔

اپنے وطن کے لیے دنیا بھر میں خدمات انجام دینے کے بعد پھر اسی ملک کی شہریت ترک کرنا کسی بھی فرد کے لیے اتنا آسان نہیں ہوتا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر ایسا کرنے کے پیچھے بنیادی وجہ مسلسل نظرانداز کیا جانا ہی ہوتا ہے۔

تازہ ترین مثال باکسر محمد وسیم کی ہے جو اپنے کیرئیر میں اب تک 8 انٹرنیشنل فائٹس لڑ چکے ہیں اور اپنے تمام مقابلوں میں انہوں نے قومی پرچم سربلند رکھا، محمد وسیم جب جب رِنگ میں اترے یا مقابلہ جیتنے کے بعد رنگ سے باہر نکلے تو انہیں جسم پر قومی پرچم لپیٹے دیکھا گیا، لیکن وہی محمد وسیم آج کسی اور ملک کی نمائندگی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

محمد وسیم نے اپنے مختصر ویڈیو پیغام میں دلبرداشتہ ہو کر پیغام دیا کہ وہ مجبور ہوچکے ہیں کہ پاکستان کے بجائے امریکا یا جنوبی کوریا کی شہریت حاصل کر کے انہی ممالک کی نمائندگی کریں۔

باکسر کے الفاظ میں چھپے درد میں نظرانداز کیے جانے کا دکھ محسوس کیا جاسکتا ہے، شاید متعلقہ افراد جان بوجھ کر وہ درد محسوس کرنا ہی نہیں چاہتے ہوں گے۔

محمد وسیم نے یہی کہا کہ وہ مستقبل میں بھی پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ ایسے مسائل ہیں جو انہیں دوسرے ملک کے لیے کھیلنے پر مجبور کر رہے ہیں، وہ مسائل یقیناً عالمی معیار کے مطابق سہولیات کا فقدان، فیڈریشن کی جانب سے حوصلہ افزائی کی کمی اور مالی مسائل ہیں۔

امریکا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں کھلاڑیوں کے لیے تربیت، معاوضے کی فراہمی اور حوصلہ افزائی جیسی چیزوں میں کنجوسی نہیں کی جاتی، وہاں کھلاڑیوں کو بھرپور پذیرائی ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کھیلوں سے وابستہ افراد غیرملکی شہریت حاصل کرکے ایسے ممالک کی نمائندگی کرنے پر نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنے ٹیلنٹ کی پیاس ایسے ممالک میں ہی جاکر بھجاتے ہیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے محمد وسیم پہلے پاکستانی باکسر ہیں جنہوں نے ورلڈ باکسنگ کونسل کا ٹائٹل اپنے نام کیا اور اس وقت وہ سلور فلائی ویٹ چیمپئن ہیں، باکسر کا پاکستان چھوڑ کر کسی اور ملک کے لیے کھیلنا کھیلوں کی وزارت کے منہ پر زور دار طمانچے کے مترادف ہوگا۔

محمد وسیم پہلے شخص نہیں جو ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، اس سے قبل اپنے ٹیلنٹ کی پیاس بھجانے کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر اظہر محمود بھی اس کی واضح مثال ہیں جو 21 ٹیسٹ اور 143 ایک روزہ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں لیکن جب کارکردگی کے باوجود انہیں نظرانداز کیا گیا تو انہوں نے برطانیہ کی شہریت حاصل کرلی۔

انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے کے لیے اظہر محمود نے پاکستان کے بجائے بھارتی پاسپورٹ کا استعمال کیا اور برطانیہ کی طرف سے کھیلنے لگے جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن جب پی سی بی نے ان سے خدمات طلب کیں تو وہ بھاگے بھاگے واپس آگئے اور ان دنوں قومی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان کی شہریت ترک کر کے جنوبی افریقا کی شہریت حاصل کرنے والے عمران طاہر بھی ایسے ہی کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو کبھی پاکستان ٹیم کی نمائندگی کیا کرتے تھے، سبز ٹی شرٹ پہن کر عمران طاہر نے انڈر 19 ٹیم میں پاکستان کی نمائندگی کی، انہوں نے ڈومسٹک کرکٹ میں پی آئی اے اور سوئی سدرن کی نمائندگی بھی کی۔

لیکن سلیکشن کمیٹی کی جانب سے قومی ٹیم میں شامل نہ کیے جانے کے بعد عمران طاہر نے جنوبی افریقا کا رخ کیا، وہاں کی شہریت اختیار کی، اپنے ٹیلنٹ سے کرکٹ افریقن بورڈ کو متاثر کیا اور قومی ٹیم کے لیے منتخب ہوگئے۔

عمران طاہر بہترین بولرز کی آئی سی سی رینکنگ میں کافی عرصے پہلی پوزیشن پر بھی براجمان رہے، عمران طاہر کا پاکستان اور پاکستان کرکٹ کو چھوڑ کر جنوبی افریقا کی طرف سے کھیلنا شاید ان سلیکٹرز کے منہ پر طمانچہ ہوگا جنہوں نے ٹیلنٹ کو اس طرح نظرانداز کیا۔

آسٹریلوی کرکٹر فواد احمد خان نے بھی وہی سب کیا جس طرح عموماً کھلاڑی اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر نام بنانے کے لئے کرتے ہیں، فواد احمد قومی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز لیگ اسپنر یاسر شاہ کے کزن ہیں جنہوں نے 2013 میں آسٹریلوی شہریت حاصل کی اور آسٹریلیا کی جانب سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز میں کینگروز کی نمائندگی کی۔

لیگ اسپنر فواد احمد نے 2005 میں ایبٹ آباد کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ڈیبیو کیا، 2 میچز کھلائے جانے کے بعد انہیں ڈراپ کردیا گیا جس کے بعد وہ مزید محنت کرکے ایک مرتبہ پھر پاکستان کسٹم کی طرف سے 2009 میں قائداعظم ٹرافی میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔

2010 میں فواد احمد کو یوگلی کرکٹ ایسوسی ایشن نے آسٹریلیا میں اپنے پاس بلالیا جس کے بعد وہ آسٹریلیا میں ہی کرکٹ کھیلتے رہے اور 2013 میں انہوں نے باقاعدہ طور پر شہریت کے لیے اپلائی کیا اور نیشنل کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوئے۔

سعادت گل خان نے پاکستان کی جانب سے 84 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جس کے بعد انہوں نے 1998 میں آئرلینڈ کی شہریت اختیار کی اور وہیں کے ہو کر رہ گئے، سعادت گل نے آئرلینڈ میں رش کرکٹ کلب سے معاہدہ کیا اور اسی کلب سے کھیلتے رہے۔

کھیلوں کے علاوہ اداکاری، گلوکاری اور سیاست سے وابستہ شخصیات کی بھی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پاکستان چھوڑ کر دیار غیر کو اپنا بنایا اور اب باکسر محمد وسیم بھی ایسا ہی کرنے جارہے ہیں۔

اگر کھیلوں کی وزارت خواب خرگوش سے جاگ جائے تو اس جانب بھی توجہ دے کہ اسے کھیلوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرنا ہے اور کھیلوں کے ذریعے پاکستان کا دنیا بھر میں نام روشن کرنے والے افراد کے مسائل حل کرنا ہیں تاکہ پھر کسی اور کو عمران طاہر یا اظہر محمود نہ بننا پڑے۔

مزید خبریں :