28 نومبر ، 2017
اسلام آباد: شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں نیب کی اپیل پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حدیبیہ ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اصل ریفرنس کہاں ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اصل ریفرنس ہمارے لیے متعلقہ ہے'۔
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اصل ریفرنس انہیں نہیں مل سکا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اصل ریفرنس متعلقہ نہیں'۔
جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ جب ریفرنس ہی سامنے نہیں تو کیا سنیں؟
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 'پٹیشن کیا ہے؟ سنائیں پھر دیکھتے ہیں'۔
جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو پٹیشن پڑھ کر سنایا۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جب کیس چل رہا تھا تو ملزم باہر چلے گئے تھے۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ملزم خود گئے تھے یا انہیں جبراً بھجوایا گیا؟
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اُس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف تھے، جنہوں نے ملزمان کو ملک سے باہر بھجوایا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا کیس یہ ہےکہ اثرورسوخ استعمال کرکےکیس ختم کرایا گیا۔
ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ جب یہ ریفرنس بنا تب اقتدار میں کون تھا؟ جب نوازشریف ملک میں واپس آئے تب اقتدار کس کا تھا؟ نواز شریف کے ملک واپس آنے کے بعد یہ ریفرنس دوبارہ کھولنے میں کتناوقت لگا؟ اور ریفرنس فائل ہونے کے کتنے عرصے بعد اقتدار ملا؟
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ریفرنس کھولنے میں لگ بھگ 9 ماہ لگے۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ جب ریفرنس بنا، جب ملزمان واپس آئے اور جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو اثرورسوخ کیسے استعمال ہوا؟
ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ بہتر ہے کہ نیب ایک چارٹ بناکر پیش کرے جس میں تاریخیں لکھے، 'تاریخیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں'۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ 2014 میں اثر ورسوخ استعمال کرکے ریفرنس بند کرایا گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہےکہ وہ (ملزمان) اقتدار میں نہیں تھے تو اثرورسوخ استعمال کیسے ہوگیا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ کسی کو زندگی بھر ریفرنس کے نام پر ٹارچر نہیں کرسکتے'۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کتنے دن میں ریفرنس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے؟جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 30 دن میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حدیبیہ ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جب سے ریفرنس فائل ہوا اور جب ملزمان باہر گئے تو ٹرائل کورٹ نے کیا کارروائی کی؟
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ چیئرمین نیب کس طرح اثرورسوخ لیتا ہے؟
جسٹس مشیر عالم نے اس موقع پر کہا کہ 'ہمیں مطمئن کریں کہ اثرورسوخ کا معاملہ کس طرح ہوا'؟ ساتھ ہی انہوں نے پراسیکیوٹر نیب کو ہدایت کی کہ تاریخ وار کیس کی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے ریفرنس بحالی سے متعلق درخواستوں کا رکارڈ بھی طلب کرلیا اور استفسار کیا کہ کیس کن درخواستوں کی بنیاد پر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاتارہا؟
ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس حوالے سے بھی ریکارڈ طلب کرلیا کہ یہ ریفرنس احتساب آرڈیننس کی کن شقوں کی بنیاد پر دائر ہوا۔
سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ یہ اسپیشل بنچ ہے اور یہ سارا ریکارڈ آپ کے پاس ہونا چاہیے تھا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'جس طرح سپریم کورٹ کا حکم ہو'، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ 'ہمارا حکم تو یہ تھا کہ کیس چلائیں جو آپ سے چل نہیں رہا'۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ آپ نے حدیبیہ ریفرنس کس بنیاد پر فائل کیا؟
پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ حدیبیہ ریفرنس آڈٹ رپورٹ کی بنیاد پر دائر کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جےآئی ٹی رپورٹ کے والیم 8کی کاپی بھی منگوالی۔
نیب پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ سے وقت دینے کی استدعا کی، جسے منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 11 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس پر نظرثانی اپیلوں کے فیصلے میں نیب کو ایک ہفتے کے اندر حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کی ہدایت دی تھی جس پر نیب حکام نے عدالت کو کیس پر اپیل دائر کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
بعدازاں نیب نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ کھولنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
نیب کی جانب سے دائر اپیل میں سابق وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت عظمیٰ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کارروائی کرے جس میں عدالت عالیہ کے دو ججز کے درمیان اس کیس پر فیصلہ ٹائی ہوا تھا اور تیسرے ریفری جج نے کیس ختم کرنے کا کہا تھا۔
نیب کی جانب سے مزید کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں کچھ چیزیں ضروری ہیں جن کی نیب تحقیقات کرنا چاہتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے رواں ماہ 10 نومبر کو نیب کی اپیل پر شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
تاہم 13 نومبر کو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مذکورہ ریفرنس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی، جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
بعدازاں 25 نومبر کو سپریم کورٹ کا نیا خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا۔