بلاگ
Time 29 نومبر ، 2017

من گھڑت خبروں میں سچ کی تلاش

—فوٹو:فائل

یہ دور من گھڑت خبروں کا ہے جسے آپ متبادل سچ بھی کہہ سکتے ہیں، جعلی یا جھوٹی خبریں نا صرف گمراہ کن بلکہ خطرناک بھی ہوتی ہیں جیسا کہ دنیا نے عراق جنگ میں دیکھا۔

 11\9 کے بعد امریکہ کے بیشتر میڈیا نے جارج بش اور ان کی حکومت کی مدد کرنے کے لئے اس جھوٹ کو پروان چڑھایا کہ صدام حسین کے پاس وسیع تباہی کے ہتھیار ہیں لیکن 2004 میں نیو یارک ٹائمز جیسے نامور ادارے کو بھی اپنے جھوٹ پر معافی مانگنا پڑی۔

ادارتی نوٹ میں لکھا کہ شاید ہمارے مدیر ’جلدی میں تھے‘ اور ’ہماری رپورٹنگ میں کمی رہ گئی‘ مگر معافی مانگنے سے کیا ہوا؟ تب تک ایک لاکھ سے زائد عراقی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

میڈیا کی ناکامی کی اس سے بڑی مثال ہمارے دور میں نہیں ملتی اور صحافت کے شعبہ کو صحافیوں سے زیادہ نقصان کسی نے نہیں پہنچایا۔

آج یہ حال ہے کہ اخبار میں جو پڑھا اور ٹی وی پر جو دیکھا، اس پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے جس پر ان کو دوش بھی نہیں دیا جا سکتا۔

ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا میں ایسے لوگوں کی تعیناتی ہوئی جن کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں اور جن کو صرف اپنا خاص بیانیہ بیچنا ہوتا ہے۔

خبروں کی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کو ادارتی بورڈ کے سامنے رکھا جاتا ہے، اگر بورڈ ان خبروں پر غور بھی کر لے تو مدیروں کے پاس اتنا تجربہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ دانش مندانہ فیصلہ کر سکیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ ادارتی پالیسی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے جب ریس یہ لگی ہو کہ زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے کون اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے تو پھر کوئی بھی خبر جو بکتی ہے، خواہ کتنی ہی مشکوک کیوں نہ ہو کیکن اسکرین تک اپنا رستہ ڈوھونڈ ہی لے گی۔

یہ معاملہ ایک سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے، پاکستان میں ٹیلی وژن کے ٹاک شو کے میزبان پرائم ٹائم پر ہمارے رو برو ہوتے ہیں اور ان کی رائے دیکھنے والوں کے لئے اہم ہوتی ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری ان میزبانوں کو ’سیاسی اداکار‘ کہتے ہیں، میزبان کی کرسی اتنی پرکشش ہو چکی ہے کہ کچھ سیاستدان میزبان بننا چاہتے ہیں جب کہ کچھ میزبان الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔

اتنا طاقتور ہونے کے باوجود میڈیا ابھی اتنا بالغ نہیں ہوا ہے، تجزیہ نگار ہر تھوڈے دن بعد حکومت کے خاتمے کی نوید سنا دیتے ہیں اور قیاس آرائیوں کو خبر گردان کر چلا دیا جاتا ہے۔

2008 سے 2016 تک کے ٹاک شوز کو دیکھیں تو جھوٹ پر مبنی رپورٹس کی ایک لمبی فہرست تیار ہو جائے گی، کبھی کسی نے ہندوستانی جاسوس سربجیت سنگھ کو ہلاک کر دیا، تو کسی نے زرداری صاحب کو دبئی لے جانے کے لئے اسپیشل جہاز کا انتظام کر دیا اور کبھی کسی نے ہماری افواج کو یمن بھجوانے کے لئے سب کو رضامند کرلیا۔

خبر کو ایف آئی آر کی طرح پیش کرنا چاہئے یعنی حقیقت پر مبنی اور باترتیب، ذاتی رائے اور تاثرات کو بلاگ یا ادارتی صفحوں تک محدود رکھنا چاہئے ورنہ میڈیا پر اعتماد، جو جمہوریت کی ضرورت ہے، کم ہو جائے گا۔

صحافی اور ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کو مخالف کی نظر سے دیکھنا پڑے گا اور ہمارا کام رعایت دینا یا مہربانی کرنا نہیں، ہمارے شعبے کو سیاسی یا حکومتی مراعات حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا قطعی طور پر جائز نہیں۔

ایک نیا مظہر سوشل میڈیا کا بھی ہے، سوشل میڈیا سے خبریں مرکزی میڈیا تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس سے سوشل میڈیا کو اہمیت ملتی ہے اور اس کی ساکھ بڑھتی ہے۔ 

ویڈیو، آڈیو اور جعلی دستاویزات کو نیوز اینکر مصدقہ خبر مان کر ٹی وی پر چلا دیتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا گروپ کے مالکان کو ریٹنگ کی زیادہ فکر رہتی ہے اور خبر کی صداقت کی کم۔

آج کا میڈیا اینکر پر انحصار کرتا ہے، ان اینکرز کا فلسفہ یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں کہ ان کا جھکاؤ کسی بھی مخصوص سیاسی جماعت یا ادارے کی طرف ہو۔

 کرپشن، دہشت گردی یا آمریت پر موقف اختیار کرنا علیحدہ بات ہے۔ سیاسی معاملات میں حقائق پر مبنی رپورٹنگ ہی ہونی چاہیے، چاہے سچ بولنے میں کتنا بھی خطرہ لاحق کیوں نہ ہو۔

مستقبل کے صحافیوں کے لئے ایک سادہ سا اصول ہے، ’خبر پہلے دو لیکن تصدیق شدہ خبر دو‘۔

مظہر عباس جیو ٹی وی اور جنگ گروپ کے سینئر صحافی، اینکر اور تجزیہ نگار ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔