11 دسمبر ، 2017
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر کیس کے حقائق سے متعلق لائیو ٹی وی شوز کے دوران کیس پر بات کرنے پر پابندی عائد کردی۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی نیب کی درخواست پر سماعت کی۔
طویل سماعت کے دوران عدالت نے نیب کی جانب سے سماعت کے التوا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سے کئی سوالات بھی کیے۔
نیب کے وکیل عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ نیب پراسیکیوٹر کا عہدہ خالی ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ اس اہم مقدمے میں پراسیکیوٹر خود پیش ہوں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر نیب نے سماعت میں التوا کی درخواست کی تھی۔
جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوٹر نیب کا عہدہ خالی ہونا کیس کے التوا کی کوئی بنیاد نہیں اور پراسیکیوٹر کی تقرری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، کیس ملتوی نہیں ہوگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اُڑائیں، ہمارے لیے ہر کیس ہائی پروفائل ہے،کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں۔
جسٹس قاضی فائز نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ التوا کی درخواست کی ہدایت کس نے دی جس پر وکیل نے بتایا کہ التوا کی درخواست کا فیصلہ چیرمین نیب کی سربراہی میں اجلاس میں ہوا۔
جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیوں نہ ہم چیرمین نیب کو بلا لیں جس پر وکیل نے کہا کہ پراسیکیوٹر نیب کی سمری بھیجی جا چکی ہے جو جلد منظور ہوجائے گی جب کہ عدالت نے نیب کے وکیل کے دلائل کے بعد کیس ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
کیس التوا میں ڈالنے کی نیب کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ 10 دسمبر 2000 کو نواز شریف جلاوطن ہوئے تھے جس پر جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا اس وقت پاکستان کو کون سی حکومت چلا رہی تھی جس پر وکیل نے کہا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف تھے۔
جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ ملزم اٹک میں تھا تو طیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سوال کیا کہ مفرور کا تو سنا تھا جلا وطنی کا حکم کیسا ہے۔
وکیل نیب نے بتایا کہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا اور وہ خود ملک سے باہر گئے تھے جس پر جسٹس قاضی عیسیٰ نے کہا کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور قرار دینے کی کارروائی ہونی چاہیے تھی، کیا جلاوطن کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ معاملہ سرد خانے میں کیوں رکھا گیا، کیا نیب نے جلاوطنی کے لئے سہولت کاری پر کسی کے خلاف کارروائی کی، نہیں جاننا چاہتے کہ صدر کون تھا یا چیئرمین کون تھا، دیکھنا ہے ریفرنس میں مجرمانہ عمل کیا ہے، غیر قانونی عمل بتائیں یا کرپشن بتائیں۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے کہا تھا حدیبیہ کا تعلق پاناما سے ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے ادارے پر خود حملہ آور ہو رہے ہیں، آپ جو مثال قائم کر رہے ہیں وہ خطرناک ہے، پاناما میں آبزرویشن نہ آتی تو آپ اپیل دائر نہ کرتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کو کہا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں وہ ایک اقلیتی نکتہ نظر ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے جب معاملہ آئے گا تو پھر دیکھیں گے۔
عدالت نے حدیبیہ پیپر کے حقائق سے متعلق لائیو شوز پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کیس کی صرف رپورٹنگ کی اجازت ہوگی تبصروں کی نہیں۔
جس کے بعد عدالت نے ریفرنس کی مزید سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی۔