پاکستان
Time 15 دسمبر ، 2017

کیا سپریم کورٹ عمران خان کیساتھ بھی وہی کریگی جو نواز شریف کے ساتھ کیا

آج جب سپریم کورٹ رولنگ دے گی تو کیا یہ عمران خان کے لیے بھی وہی دوائی تجویز کرے گی جو اس نے ساڑھے چار ماہ قبل نواز شریف کے  لئے تجویز کی تھی؟۔

 ’’میڈیکل ریکارڈ‘‘ کے  مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)عمران خان کے کیس میں بظاہر بیماری بے دخل ہونے والے وزیراعظم کی بیماری کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ تھی لیکن صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کیلئے کیا تجویز کیا جائے گا۔

مکمل بریت، تاحیات نااہلی یا ایک بار نااہل۔ اگر پی ٹی آئی سربراہ بری ہوجاتے ہیں تو بہت زیادہ خوش ہوں گے اور انھیں یہ کہنے سے کوئی نہیں روک سکےگا کہ وہ ایک صاف انسان ہیں جبکہ ان کے مخالف کرپٹ ہیں۔ 

یہ قابلِ بحث ہوگا کہ ان کی بریت سے انھیں سیاسی فائدہ ہوگا یا نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی تقریباً اپنے تمام کارڈ استعمال کرکے تھک چکے ہیں۔ لیکن اگر وہ نااہل ہوگئے تو نہ صرف ان کی سیاست بلکہ پی ٹی آئی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی کیونکہ نواز شریف کی طرح ان کے پاس سہارےکیلئےکوئی نہیں ہے۔ 

نواز شریف کے پاس کافی تعداد میں قائدین موجود ہیں جو اپنی سرپرستی میں پارٹی کو موجودہ طوفان سے نکال سکتے ہیں۔ عمران خان کی بے دخلی سے ان کی پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ کے خطرات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ ان کے بعد کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے جو رہنمائی کرسکے۔ 

سپریم کورٹ کے ہاتھوں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کی جانب سے جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار چیمہ کی طرح قومی اسمبلی کی رکنیت سےایک بار بےدخلی عمران خان کے کیرئیر کے لئے ایک داغ ثابت ہوگی، لیکن یہ عارضی ہوگا اور ان کیلئے سکون کا باعث بنےگا۔ 

اگر پی ٹی آئی سربراہ کو الزام سے بری کردیا جاتا ہے تو پی ایم ایل(ن) اس نکتے کو مزید زور و شور سے اچھالے گی کہ مختلف سیاستدانوں کیلئے مخلتف معیار ہیں- یہ ان کے سربراہ کیلئے بہت سخت اور تباہ کن ہوگا لیکن ان کے مرکزی مخالف کیلئے نرم ہی ہوگا۔ یہ اس طرح سے استعمال کیا جائے گا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور یہ طریقہ کار بلا روک ٹوک جاری ہے۔ 

فیصلہ جو بھی ہو اس کا موازنہ پانامہ فیصلے کے ساتھ ضرور کیا جائے گا جس نے نواز شریف کو 28 جولائی کو وزیراعظم کے عہدے سے باہر کردیا۔ 

دونوں مقدموں میں شامل سیاسی مخالفت کی نوعیت کے باعث موازنہ ضرور کیا جائے گا۔ موازنہ اس لیے بھی ضروری ہوجائےگا کیونکہ ایک پارٹی-نواز شریف- کو اکھاڑے سے باہر کر دیا گیا ہے۔ 

برطرف وزیراعظم قدرتی طور پر اپنے سب سے بڑے مخالف کیلئے عدالت سے اسی طرح کے رویے کی امید کرتے ہیں، اگرچہ ان کی جانب سے فیصلے میں نقص نکالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 

نواز شریف اور جہانگیر ترین سمیت پی ٹی آئی کےسربراہ کے مقدموں میں حیران کُن مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی درخواستیں 2016 میں یکے بعد دیگرے دائر کی گئیں، لیکن انھیں اکٹھے سننے کیلئے یکجا نہیں کیا گیا۔ 

نواز شریف کے خلاف مقدمے کا فیصلہ تیزی سے کیاگیا جبکہ عمران خان کے خلاف درخواست میں کافی وقت لگا۔ چیف جسٹس ثاقت نےایک موقع پر یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور جہانگیر ترین کے خلاف درخوا ست میں تین ججز کی سربراہی کون کررہا ہے، وہ حیران تھے کہ کیوں یہ درخواستیں اکٹھی نہیں کی گئیں۔ 

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جوڑی کے خلاف الزامات نواز شریف پر لگنےوالےالزامات سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ 

عمران خان نے خود بھی یہ تسلیم کیاہے کہ ان کی غیرملکی کمپنی اور اس کےساتھ منسلک بینک اکائونٹس کا پہلےکبھی ٹیکس ریٹرنز یا کاغذاتِ نامزدگی میں ذکرنہیں کیاگیا جبکہ ترین اگرچہ انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے غیرملکی کمپنی سمیت اپنےاثاثے کبھی غلط نہیں بتائے، اُن کی آف شور فرم کی ٹرسٹ ڈیڈ جوکورٹ کے سامنے پیش کی گئی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ برطانیہ میں 12ایکٹر کی پراپرٹی کے واحد مالک ہیں۔ 

دوسری جانب نوازشریف کےکیس میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کا معاملہ ان کے بیٹے کی دبئی میں موجود کمپنی سے وصول نہ کرنے والی تنخواہ کے باعث پیدا ہوا، تاہم نا اہل کرنے کی یہ وجہ بڑے وکلاءکےدرمیان ایک تنازع ہے۔ بے شکیہ عدالت کا فیصلہ ہوگا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی جانب سے اثاثے ظاہر نہ کرنے کو کیسے دیکھاجائےگا۔ 

سب کیلئے بالخصوص لیگل کمیونٹی کیلئےاہم اورسبق آموز یہ ہوگا کہ نئی رولنگ میں پانامہ فیصلے پر انحصار کیاجائےگا یا نہیں اور یہ سابقہ فیصلہ کتنی اہمیت کا حامل ہوگا۔ پہلا بنچ پانچ ججز پر مشتمل تھا جبکہ موجودہ پینل تین ججز پر مشتمل ہے۔

 چیف جسٹس کے بنچ کا فیصلہ جوبھی ہو اس پر بھی اتنی ہی بحث اور تبصرہ ہوگا جتناکہ پانامہ فیصلے پرسیاسی اور دیگر حلقوں میں بحث کی جارہی ہے۔ نواز شریف کے خلاف فیصلے کو وہ اور اُن کی پارٹی کےرہنما پہلےدن سےہی ’’ جانبداراور تعصبانہ‘‘ کہہ کر مستقل رد کررہے ہیں۔ اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں ہوتا تو پی ٹی آئی اپنی معمول کی سخت زبان میں اُسے رد کردیتی۔ 

جب عمران خان اور جہانگیر ترین کا فیصلہ آئے گا تب بھی اسی طرح ہوگا۔ ایک پارٹی اس کی بہت زیادہ تعریف کرےگی جبکہ دوسری ناپسندیدگی کا اظہارکرےگی۔ 

اس سیاسی نوعیت کے مقدمات کا منفی پہلو ہے۔ فیصلہ خلاف آنےپر عمران خان کا خاموشی سے گھر جانےاور سیاست چھوڑنے کی بات محض ایک بڑا کھوکھلا سیاسی نعرہ ہے۔ ان کا ردِ عمل بھی نواز شریف سے مختلف نہیں ہوگا۔ وہ بھی یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انھیں کیوں نکالا۔ 

پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف مقدمےکا اہم نکتہ یہ ہوگا کہ ان کی اہلیت کوآئین کے آرٹیکل 62(1)(f) یا سابق ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ(جو اب الیکشن ایکٹ2017 میں ضم ہوچکاہے) پر پرکھا گیاہے یا نہیں۔ دونوں دفعات میں فرق یہ ہے کہ اگر کسی کو آرٹیکل 62(1)(f) کی بناپر نااہل قراردیاجاتا ہے تو وہ زندگی بھر کیلئے نااہل ہوتاہے، جبکہ دوسرے آپشن کی صورت میں صرف ایک بار ہی سیٹ سے بے دخل کیاجاتاہے اور متاثرہ شخص فوری طور پرالیکشن لڑ سکتاہے۔

 یہ بھی دیکھا جائےگا کہ کیا قانون کا نفاذ نواز شریف کےمقدمےکی طرح ہی سختی اورباریکی سےکیاجاتا ہےیا نہیں۔ واضح طور پر نواز شریف عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف فیصلہ جلد چاہتے ہیں ، اور انھوں نے اس خواہش کا اظہار اس وقت کیا جب انھوں نے کہا: ہمارے خلاف فیصلہ تیزی سے کیاگیا؛ اور پی ٹی آئی کے دورہنماوں اور علیم خان کی کرپشن کے خلاف فیصلہ کب آئےگا؟ اُن پانچ ججز کا لہجہ اور انداز جنھوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنایا، اور وہ تین ججز جو عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف کیس کی سماعت کررہے ہیں، یہ حیران کُن طور پر مختلف ہیں۔

 گزشتہ فیصلہ ججز کے ریمارکس سے مماثلت رکھتا تھا۔ موجودہ بنچ نے فیصلہ سنانے میں ایک مہینہ لیاجبکہ پانامہ پینل نے اپنا فیصلہ جاری کرنے کیلئے 58 دن لیےتھے۔

نوٹ: یہ رپورٹ 15 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :