کیا کراچی کا امن صرف رینجرز کی ذمہ داری؟

ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید کی شہر کے سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد گروپ فوٹو—۔

گذشتہ دنوں کراچی میں ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے شہر کے سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات رکھی جس میں رینجرز کی کارکردگی کے ساتھ سوال و جوابات کا سیشن بھی ہوا۔

اپنی بریفنگ میں ایک طرف جہاں انہوں نے شہر میں ہونے والے رینجرز، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس آپریشنز کی تفصیلات بتائیں، وہیں امن و امان کی بہتر صورت حال اور جرائم کی شرح نیچے آنے پر عوام کے تعاون اور حکومت و سیکیورٹی اداروں کی مشترکہ کاوشوں کو بھی اہم قرار دیا۔

یہ اعداد وشمار اور گراف تو کئی دن قبل خبروں کی زینت بن چکے، لیکن ڈی جی رینجرز سے ہونے والی غیر رسمی گفتگو کے کئی حصے ہم یہاں اپنے قارئین کی نظر کررہے ہیں۔

اس گفتگو میں ہم نے ڈی جی رینجرز کے خیالات کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ رینجرز اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ شہر میں امن و امان کے لیے جاری آپریشن کو اسی اسپرٹ کے ساتھ جاری رکھا جائے گا، دوسری جانب پولیس کی مدد کے لیے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے بھی جامع پالیسی اپنائی جارہی ہے۔

ڈی جی رینجرز نے اپنی گفتگو میں اس بات کو واضح کیا کہ ماضی میں شہر میں جو نام خوف و ہراس کا باعث بنے، ان سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، ان کا کہنا تھا، 'ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی قوت یا شخص کو نہیں چھوڑیں گے'۔

میجر جنرل محمد سعید نے سیاسی دھڑوں (پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان) کو ملانے میں رینجرز کے کردار کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا، 'میں سمجھتا ہوں کہ شہر میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، کون سیاست میں کیا پوزیشن لے گا، یہ ہمارا مینڈیٹ نہیں۔ یہ بات عوام اپنے ووٹ سے طے کرتے ہیں، رینجرز نے گزشتہ ضمنی انتخابات میں اپنے مینڈیٹ کے مطابق ایمانداری سے فرائض انجام دیئے جو ریکارڈ پر موجود ہیں'۔

ملاقات کے دوران میجر جنرل محمد سعید نے میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ میڈیا اہم ذمہ داری ادا کر رہا ہے، لیکن بعض اوقات خبر کی حساسیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا، 'گلستان جوہر میں چھری مارنے کے واقعات کو زیادہ اجاگر کرنے سے دنیا میں شہر کراچی کا منفی تاثر گیا، شہر کے ایک علاقے میں ہونے والے یہ واقعات میڈیا میں جس طرح کی تصاویر لگا کر دکھائے گئے، اس سے یہ تاثر گیا کہ کراچی میں خواتین کا باہر نکلنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے، جبکہ انڈیکس پر پہلے یہ تاثر پڑوسی ملک بھارت کے دارالحکومت (نئی دہلی) کے بارے میں سرفہرست تھا'۔

کراچی میں رینجرز کی موجودگی اور جرائم  کی شرح کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی ینجرز نے کہا، 'یہ بات صحیح ہے کہ شہر میں 1992 سے رینجرز موجود ہے، لیکن اس کے اختیارات محدود تھے، 80 کی دہائی سے قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا، سیاسی تنازعات میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بڑھا اور معاملات انتہائی خراب ہوئے، تاہم صوبائی اور وفاقی حکومت نے رینجرز کو خصوصی اختیارات 2013 کے بعد دئیے، یہ اختیارات ملنے پر کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد سے سالانہ سنگین جرائم کا گراف نیچے آیا اور 2017 میں دسمبر کے وسط تک دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا'۔

ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ 2013 کے عالمی کرائم انڈیکس میں کراچی چھٹے نمبر پر تھا اور اب 52 کی نچلی سطح پر آگیا ہے۔

میجر جنرل محمد سعید نے شہر میں دہشت گردوں کے کئی خطرناک نیٹ ورکس توڑے جانے کی بھی نوید سنائی، جس میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور انصار الشریعہ سمیت دیگر شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال 1400 سے زائد اسٹریٹ کرمنلز اور ڈکیت پولیس کے حوالے کیے گئے، ان میں کچھ ایسے ملزمان بھی تھے جو تیسری اور چوتھی بار گرفتار ہوئے، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ شہریوں کو زخمی اور ہلاک کرنے والے ڈاکوؤں کو انسداد دہشت گردی قانون کے دائرے میں لانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

ملاقات کے دوران میجر جنرل محمد سعید نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی توجہ کے بعد پولیس کی صلاحیت بڑھائی جارہی ہیں اور فوج کے زیر نگرانی بھرتی اور تربیت حاصل کرنے والے 20 ہزار اہلکاروں سے پولیس فورس کو مزید قوت حاصل ہوگی۔

ڈی جی رینجرز نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شہر کی کسی جماعت میں ٹارگٹ کلرز کی تنظیم نہیں بننے دی جائے گی، ان کا کہنا تھا، 'سوچ پر پہرہ نہیں لگ سکتا، لیکن کسی کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے'۔

ڈی جی رینجرز سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر خلوص نیت سے اقدامات کیے جائیں تو حکومت اور ادارے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکتے ہیں اور جرائم کے لیے سہولت کار بننے والے پیسے کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے۔

لیکن اگر حقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کراچی میں زمینوں پر قبضے اب بھی برقرار ہیں، پتھارے اور غیر قانونی پارکنگز بھی چلائی جارہی ہیں، غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور واٹر ٹینکرز شہر میں بلا جھجک کروڑوں کا پانی فروخت کرکےکالا دھن بنارہے ہیں، ایرانی ڈیزل اور ریتی بجری سمیت دیگر غیر قانونی کام بھی جاری ہیں اور یہ تمام پیسہ سنگین جرائم اور دہشت گردی کے لیے ایندھن کا کام انجام دیتا ہے۔

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا کراچی کا امن صرف رینجرز کی ذمہ داری ہے؟ باقی ادارے کب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور اس شہر کو اپنا سمجھ کر اس کی بہتری اور امن و امان کے لیے کام کریں گے؟

ہم سب پُر امید ہیں کہ صورتحال ضرور بہتر ہوگی، لیکن اس تمام غیر قانونی عمل کی روک تھام صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پالیسی بنائے اور اداروں سے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، شہر قائد کے باسی تو ان جرائم اور غیرقانونی دھندوں کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ہیں ہی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔