Time 20 دسمبر ، 2017
بلاگ

بھوتوں کا داخلہ منع ہے!

کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں، ہر اہلکار یہ دعویٰ کرتا ملے گا کہ اصل میں وہ فرشتہ ہے —۔فائل فوٹو

پہلے شک تھا، اب تقریباً یقین ہوگیا ہے کہ اس ملک پر بھوتوں کا سایہ ہے۔

ثبوت حاضر ہے۔ سائل بن کر کسی بھی سرکاری دفتر میں جائیں، آپ کو ہر اہلکار یہ دعویٰ کرتا ملے گا کہ اصل میں وہ فرشتہ ہے بس روپ انسان کا دھار رکھا ہے۔ براہ راست نہیں تو بالواسطہ وہ ضرور یہ کہتا نظر آئے گا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا، کام میں سستی نہیں کرتا، بد دیانت نہیں ہے اور رشوت سے تو کوسوں دور بھاگتا ہے۔

اُس کا یہ بھی دعویٰ ہوگا کہ وہ ہر کام میرٹ پر اور قواعد و ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور اس ضمن میں اپنے باس کی بھی پروا نہیں کرتا، اُس کی میز پر کوئی فائل نہیں رکتی اور کسی سائل کو اُس کے دروازے کے باہر داد رسی کے لیے گھنٹوں نہیں بیٹھنا پڑتا کیونکہ وہ ایک مستعد، فرض شناس، ایماندار اور چوکس افسر ہے۔

ہر محکمے میں ایسے مبینہ فرشتہ سیرت افسران بھرے پڑے ہیں مگر اس کے باوجود ہر اہلکار نیک، ایماندار اور مستعد ہے، بھوت پریت کسی کا کام نہیں ہونے دیتے اور کسی فائل کا موڈ نہیں بنتا جب تک فائل کو نوٹ نہ دکھائے جائیں۔

کوئی سائل ایماندار افسروں سے مل نہیں سکتا اور اگر کسی طریقے سے افسر تک رسائی ہو جائے تو پھر بھی 'سرکاری بھوت' اُس وقت تک کام نہیں ہونے دیتے جب تک افسر کو کوئی سفارشی فون نہ آ جائے۔

 یہ بھوت نظر نہیں آتے مگر ان کا سایہ ہر جگہ ہے۔ آپ نماز کے وقفے کے دوران چلے جائیں، پورا دفتر خالی ملے گا، پتہ چلے گا سب نماز پڑھنے گئے ہیں، ان تمام نمازیوں کے ہوتے ہوئے یقیناً پھر بھوت ہی ہیں جو سائلوں سے رشوت مانگتے ہیں اور ان کے کاموں میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں سب اعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں یا عمرے پر چلے جاتے ہیں، اس کے باوجود دفاتر میں بدعنوانی ختم نہیں ہوتی، یہ بھی یقیناً شرارتی بھوتوں کی کارستانی ہے، وہ فرشتہ سیرت افسران کی جگہ آکر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور غیر قانونی احکامات جاری کرتے ہیں۔

جن لوگوں کو اب بھی بھوتوں پر یقین نہیں وہ ایک دوسرا تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ ٹی وی آن کریں، خبریں دیکھیں۔ شہ سرخیوں میں بتایا جائے گا کہ وکلاء نے کسی جگہ ہڑتال کی، ہنگامی آرائی کی، توڑ پھوڑ کی، پولیس والوں کو زدوکوب کیا، ٹریفک بلاک کی اور معزز ججوں کے خلاف نعرے بازی کی۔

لیکن خبروں کے بعد جونہی کسی ٹاک شو میں ان وکلاء کے نمائندے کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ جناب والا یہ ہڑبونگ اور توڑ پھوڑ کا کیا جواز ہے؟ تو وہ صاحب فرمائیں گے کہ کوئی کالا کوٹ والا قانون ہاتھ میں لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا، وکلاء برادری تو قانون کی عملداری پر یقین رکھتی ہے، ہم نے اس کے لیے تحریک بھی چلائی تھی جس میں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا تھا، یہ پتہ نہیں کون لوگ ہیں جو اس قسم کی ہنگامہ آرائی کرکے وکالت کے معزز پیشے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ باالفاظ دیگر، کالا کوٹ پہن کر عدالتوں کے شیشے توڑنے والے وکیل نہیں بلکہ بھوت ہوتے ہیں۔

کچھ لوگوں کی اب بھی تسلی نہیں ہوئی ہوگی۔ ایسے لوگوں کو میری طرح ہر بات کا ٹھوس ثبوت چاہیے ہوتا ہے، سو ایسے لوگ ایک مرتبہ پھر ٹی وی آن کریں، مونگ پھلیوں کا پیکٹ ساتھ رکھ لیں اور کوئی ٹاک شو لگا کر بیٹھ جائیں اور چینل بدل بدل کر دیکھیں۔

ماسوائے گنتی کے چند پروگرام چھوڑ کر ہر جگہ کسی نہ کسی بھوت پریت کا قبضہ نظر آئے گا۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ چینلز تو ہمیشہ حق سچ کی بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، قاعدے قانون پر عملداری کی دہائی دیتے ہیں، اینکرز گنجلک ملکی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پیمرا کی حدود و قیود میں رہ کر پروگرام کرتے ہیں اور کسی قسم کا غیر اخلاقی مواد نشر نہیں کرتے تو پھر یقیناً وہ بھوت ہی ہیں جو پیمرا قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں، وہ بھوت ہی ہیں جو اپنے پروگراموں میں لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، وہ بھوت ہی ہیں جو جھوٹی خبریں نشر کرواتے ہیں اور وہ بھوت ہی ہیں جو چینلز پر چپکے سے غیر اخلاقی مواد چلوا دیتے ہیں کیونکہ آج تک کسی چینل یا کسی اینکر نے تو یہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ یہ سب کام کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی بزنس مین ٹیکس چوری نہیں کرتا، اصل میں یہ بھوت ہیں جو ٹیکس چور ہیں، کوئی مذہبی رہنما تشدد پر نہیں ابھارتا، مذہبی منافرت نہیں پھیلاتا، یہ سب بھوتوں کا کام ہے۔

ممکن ہے اب کوئی مرد عاقل یہ کوڑی ڈھونڈ کر لائے کہ جناب جھوٹ بولنے، کرپشن کرنے، مار دھاڑ کرنے اور ملکی قانون کی خلاف ورزیاں کرنے والوں پر تو مقدمات بنتے ہیں، ان کا احتساب کیا جاتا ہے، ادار ے ان کی پکڑ کرتے ہیں، انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور یہ سب سچی مچی کے انسان ہوتے ہیں کوئی بھوت پریت نہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس بات میں بھی وزن نہیں لگتا۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے جیلوں میں بھی بھوت پریت ہی قید ہیں جن کا کوئی قصور نہیں، جنہوں نے کبھی کوئی قانون نہیں توڑا، جنہوں نے کبھی تشدد نہیں کیا، جنہوں نے کبھی ہنگامہ آرائی نہیں کی۔

ایک دلچسپ بات بھوتوں کے بارے میں بچپن میں کہیں پڑھی تھی کہ شرارتی بھوت اصل میں انسانوں کو تنگ کرتے ہیں اور ہماری نقالی کرتے ہیں۔ اِس روایت میں کوئی صداقت ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سرکاری دفاتر میں اگر بھوت پریت کرپشن کرتے ہیں، کام چوری کرتے ہیں، قانون قاعدے کی پروا نہیں کرتے تو اصل میں وہ انسانوں کی نقالی کر رہے ہوتے ہیں۔ وکلاء کے بھیس میں اگر بھوت پریت توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو وہ ہماری نقل میں ایسا کرتے ہیں اور صحافیوں کے بھیس میں بھوت اگر کسی پروگرام میں عزت دار لوگوں کی پگڑی اچھالتے ہیں تو یہ کام اُن کی اپنی ایجاد نہیں بلکہ انسان اینکرز کو دیکھ کران کی کاپی کرتے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے، کم از کم میں ان بھوتوں کا ضرور قائل ہوں اور ایک طرح سے احسان مند بھی ہوں۔ یہ بھوت ہی ہیں جنہوں نے انسانوں کی عزت رکھی ہوئی ہے اور وہ چھاتی پھلا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو ایماندار ہیں، مستعد ہیں، قابل ہیں۔ اصل میں تو یہ بھوت ہیں جو تمام خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔

ایسے میں میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر میں یہ ہدایت نامہ آویزاں کروا دیں کہ 'خبردار ! بھوتوں سے ہوشیار رہیں۔ بھوتوں کورشوت نہ دیں۔ بھوتوں کا دفاتر میں داخلہ منع ہے!' وکلاء کو بھی چاہیے کہ اپنے بار رومز میں یہ تختی آویزاں کروا دیں کہ 'ہم ایک باعزت پیشے سے وابستہ ہیں، توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا نہیں بلکہ بھوت ہیں، ان سے دور رہیں۔'

چینلز کو کسی قسم کی تختی آویزاں کرنے کی ضرورت نہیں، وہ چونکہ سیلف ریگولیشن پر یقین رکھتے ہیں، سو بھوتوں کو فقط یہ ایڈوائزری جاری کر دیں کہ جی چاہے تو اپنا احتساب کرلیں اور بے شک پھر خود بری بھی کر دیں۔ بقول منیر نیازی ؎

’’منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘

کالم کی دُم: اسکولوں میں مارے جانے والے بچے، عبادت گاہوں میں اپنے رب کے آگے سر بسجود لوگ اور راہ چلتے کسی خودکش بمبار کا شکار ہونے والے عوام اپنے گھروں سے قربانی دینے نہیں نکلتے۔ بار بار قوم کی resilienceکی تعریف کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کسی بم دھماکے میں دس بیس بے گناہ افراد کے عوض دہشت گردوں کے مارے جانے کے بعد آپریشن کی کامیابی کی داد دینا مناسب نہیں۔ یہ سارا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا۔


یہ تحریر 20 دسمبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔