اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 2 جنوری تک ملتوی

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق نیب ریفرنس کی سماعت 2 جنوری تک ملتوی کردی۔

کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے گذشتہ روز اسحاق ڈار کے خلاف مزید کارروائی پر حکم امتناع دے دیا ہے۔

جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو آرڈر کی کاپی ملی ہے؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے عدالت کوبتایا کہ آرڈر کی کاپی کے لیے درخواست کی ہے مگر ملا نہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے معزز جج سے استدعا کی کہ اگر چھٹیوں کے بعد کی کوئی تاریخ دے دیں تو آرڈر حوالے کردیں گے۔

جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئندہ تاریخ سماعت کیا ہے؟ 

جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 17 جنوری تک کے لیے حکم امتناع دیا ہے۔

جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار کی طرف سے کوئی آیا ہے؟

اس پر نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ اسحاق ڈار کی طرف سے کوئی نہیں آیا، وہ تو چاہتے ہی یہی ہیں، اب اسحاق ڈار کی نیک نیتی بھی معلوم ہوجائے گی کہ وہ اتنے عرصے میں واپس آتے ہیں یا نہیں۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 جنوری تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں نیب نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا ہے۔

سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔

27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

احتساب عدالت نے 11 دسمبر کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران مسلسل غیر حاضری پر اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار 7 مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔

18 دسمبر کو ہونے والی کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران استغاثہ کے 4 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف استغاثہ نے 28 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی، جن میں سے 11 گواہ اب تک بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ یہ شہادتیں ضابطہ فوجداری کی شق 512 کے تحت ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔

مزید خبریں :