Time 01 جنوری ، 2018
پاکستان

انکوائری ہوئی تو مزید اثاثے سامنے آئیں گے، وکلا کا جہانگیر ترین کو مشورہ

لندن: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے دلائل کو لفظی ’’شعبدہ بازی‘‘، مضحکہ خیز اور افسوس ناک تھے، عدالت نے ان کی جانب سے اپنے غیر اعلانیہ آف شور اثاثے ( برطانوی علاقے نیو بری میں قائم 70؍ لاکھ پائونڈ کے گھر جسے ’’ہائیڈ ہائوس‘‘ کہا جاتا ہے) کے حوالے سے دفاع میں پیش کردہ دلائل اور موقف قبول نہیں کیا۔ 

عمران خان اور جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ان کو ٹرسٹ کی ’’تکنیکی تشریح‘‘ کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا گیا لیکن اس کے برعکس عدالت نے جہانگیر ترین کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں غلط بیانی پر نا اہل قرار دیا اور قرار دیا کہ جہانگیر ترین ہائیڈ ہاؤس کے اصل اور حقیقی بینیفیشل اونر (مالک) ہیں۔ 

برطانیہ میں قائم لاکھوں کروڑو ں روپے کے اس گھر کو چھپائے رکھا گیا اور اسے ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ وہی گھر ہے جہاں سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین اپنے لندن دورے کے دوران آدھے سے زیادہ عرصہ گزارا۔ 

جہانگیر ترین نے لندن میں وکلاء اور عمران خان کے مشیر ذُلفی بخاری سے ملاقات کی لیکن وکلا نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ گھر کی ٹرسٹ ڈیڈ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس گھر کے وہ اصل مالک ہیں، نہ کہ ان کے بچے، یہ ان کا چھپایا ہوا گھر تھا جسے شائنی ویو لمیٹڈ آف شور کمپنی کے ذریعے خریدا گیا تھا اور اس کے بعد ٹرسٹ میں شامل کرکے اسے پاکستانی حکام سے چھپایا گیا۔ 

ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برطانوی وکلا نے جہانگیر ترین کو بتایا ہے کہ عدالت ان سے ٹرسٹ کے سوئس اکاؤنٹس اور بینکوں کے ساتھ تعلق کے سوالات پوچھ سکتی ہے جن کے حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں کیونکہ ٹرسٹ ڈیڈ پر جنیوا میں دستخط کرکے اسے فعال بنایا گیا تھا۔ 

جہانگیر ترین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر کسی انکوائری کا حکم دیا گیا تو انہیں مکمل معلومات افشا کرنا ہوں گی جس کے نتیجے میں مزید اثاثے اور اکائونٹس سامنے آسکتے ہیں۔ 

جب دی نیوز نے پہلی مرتبہ جہانگیر ترین کے بینیفیشل اونر ہونے کی خبر شائع کی تھی تو اس وقت انہوں نے اس ’’زرد صحافت‘‘ قرار دے کر اس خبر کی مذمت کی لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے بھی ان خبروں کو درست قرار دیا۔ 

تفصیلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے آف شور پراپرٹی کی خریداری کیلئے 55؍ کروڑ روپے بیرون ملک منتقل کرنے کے حوالے سے جہانگیر ترین کے منی ٹریل کو قبول نہیں کیا۔ 

عدالت نے قرار دیا کہ جہانگیر ترین نے ایچ بی ایل میں اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹ کے ذریعے 11؍ چیکس کے ذریعے 2295000؍ برطانوی پائونڈز برطانیہ میں اپنے ایچ بی ایل اکائونٹ میں منتقل کیے۔ 

یہ کارروائی 15؍ دسمبر 2010ء سے 5؍ مئی 2011ء کے درمیان کی گئی۔ تاہم، جہانگیر ترین کے بیرون ملک بینک اکائونٹس کے بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعے اتنی رقم کی کریڈٹ انٹری ثابت نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی، کسی بھی دستاویز میں اتنی رقم کے استعمال اور ادائیگیوں کا ذکر نہیں۔ 

سپریم کورٹ نے منی ٹریل کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ بیرون ملک ایس وی ایل کا اکائونٹ کون چلا رہا تھا اور یہ اکائونٹ کس نے کھولا تھا۔ 

عدالت کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کی جانب سے وقتاً فوقتاً جو رقم بیرون ملک بھیجی گئی وہ اس وقت کے ایکسچینج ریٹ کے حساب سے 53؍ کروڑ 23؍ لاکھ اور 54؍ ہزار روپے بنتی ہے۔ تاہم، جہانگیر ترین اور ایس وی ایل کے بینک اکائونٹس کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں خود ساختہ اسٹیٹمنٹ ریکارڈ پر پیش کی گئی جسے عدالت نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 

سپریم کورٹ نے فیصلہ کن انداز سے قرار دیا کہ لین دین کا مالی پہلو اب تک غیر واضح اور اس کی وضاحت بھی پیش نہیں کی گئی۔ عدالت نے پیش کردہ منی ٹریل کو مسترد کر دیا۔ جہانگیر ترین نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہائیڈ ہاؤس کی از سر نو تعمیر کیلئے برطانوی بینک سے قرضہ حاصل کیا گیا تھا لیکن عدالت نے یہ دلیل قبول نہ کی۔ 

عدالت کا کہنا تھا کہ ای ایف جی پرائیوٹ بینک سے 23؍ جولائی 2015ء کو قرضہ لینے کا چارج بنایا گیا لیکن قرضہ کی رقم ظاہر نہیں کی گئی۔ یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ قرضہ کب لیا گیا تھا یا قرضے کی منظوری کب دی گئی تھی۔ 

جہانگیر ترین کے دلائل کو زبردست دھچکا تین رکنی بینچ نے اس وقت دیا جب عدالت نے یہ کہا کہ نہ چاہتے ہوئے پیش کی جانے والی ٹرسٹ ڈیڈ کی روشنی میں جہانگیر ترین نے واضح طور پر اور افسوس ناک انداز سے غلط بیان دیا ہے کہ ان کا ٹرسٹ یا پھر پراپرٹی میں کوئی بینیفیشل مفاد نہیں ہے، ایسا ایماندار شخص سے توقع نہیں تھی۔ 

چیف جسٹس کی جانب سے تحریر کیے جانے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ مذکورہ بالا سطور میں کہی گئی باتوں کی روشنی میں ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ جہانگیر ترین ہائیڈ ہاؤس کے اصل اور حقیقی بینیفیشل اونر تھے اور قانون کے تحت انہیں اس پراپرٹی کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر کرنا چاہئے تھا جو انہوں نے 9؍ ستمبر 2015؍ کو ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے جمع کرائے تھے۔ 

یہ معلومات چھپانے کی بنا پر آئین کے آرٹیکل 62 (اول) (ایف) کے تحت مدعا علیہ ایماندار شخص نہیں رہے لہٰذا انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے نا اہل قرار دیا جاتا ہے اور اب وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہے۔

مزید خبریں :