04 جنوری ، 2018
شریف برادران کی سعودی عرب کے دورے سے واپسی کے بعد آئندہ ایک دو ماہ (ن) لیگ کی سیاست کے لیے بہت اہم ہوں گے۔ اپنے گزشتہ کالم ’’نواز شریف سے جاتی امراء میں کون ملا؟؟‘‘ میں، میں نے اپنے تجزیئے میں یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ شریف برادران اپنے لیے این آر او مانگنے سعودی قیادت کے پاس نہیں پہنچے بلکہ اُنہیں وہاں بلایا گیا جس کا فوکس سعودی عرب کے اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے لیے انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔
میری نظر میں شہباز شریف کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ کئی دوسروں کی طرح پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی قیادت کا اندازہ ہے کہ شہباز شریف پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے اس لیے اُن سے اُن معاملات پر ابھی بات ہو جائے جو دونوں ممالک کے تعاون کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شریف برادران اس دورے کے دوران خادمین حرمین شریفین سے دعا اور دوا کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ وہ اور (ن) لیگ غیبی قوتوں کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
جس دن (گزشتہ سوموار) میرا یہ کالم شائع ہوا، اُسی روز میں نے شریف برادران کے ایک قریبی اور با خبر ذرائع سے بات کی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ سعودی عرب میں ہو کیا رہا ہے؟ یہاں شریف برادران سے تحقیقات اور اُن کی طرف سے ملک چھوڑ کر وہاں پناہ لینے کی باتیں ہو رہی تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ دونوں بھائی سعودی حکمرانوں کی دعوت پر سعودی عرب پہنچے جہاں میٹنگز کا مقصد سعودی عرب کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ تعاون جاری رہنے چاہیے۔
جیسا کہ میرا تجزیہ تھا، ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو سعودی حکمران، پاکستان کے ممکنہ مستقبل کے وزیراعظم کی حیثیت سے ہی ملے۔ جب میں نے ذرائع سے پوچھا کہ کیا شریف برادران نے کسی این آر او کی درخواست کی یا کم از کم غیبی قوتوں کے اثرات سے بچنے کے لیے مدد مانگی؟ اس پر مجھے بتایا گیا کہ کسی این آر او کی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی غیبی قوتوں کے لیے کسی دعا یا دوا کی درخواست کی گئی۔
ذرائع نے البتہ یہ ضرور کہا کہ ہوسکتا ہے سعودی حکمران خود سے ہی دعا اور دوا کا بندوبست کرلیں تاکہ (ن) لیگ کو آئندہ قومی الیکشن کے دوران غیبی قوتوں کے سائے سے پاک رکھا جائے۔ اب ہوتا کیا ہے اس کے لیے آئندہ ایک دو ماہ بہت اہم ہوں گے، جس دوران سیاسی نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ محسوس کر پائے گا کہ دعا اور دوا کا کتنا اثر ہوا۔
(ن) لیگ اور شریف برادران کو یہ پتا ہے کہ میاں نواز شریف خود آئندہ الیکشن نہیں لڑ سکتے لیکن اس کے باوجود لیگی پر امید ہیں کہ 2018 کا الیکشن (ن) لیگ ہی جیتے گی۔ لیکن انہیں خطرہ ہے کہ کوئی سازش، کوئی قوت اُن کے لیے الیکشن کو مشکل نہ بنا دے۔ (ن) لیگ کی کوشش ہے کہ کسی طرح غیبی طاقتوں کو نیوٹرل کیا جائے۔ اب کیا ہوگا اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔
جہاں تک سعودی عرب کے شاہی خاندان کا تعلق ہے وہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ضرور خواہش کرے گا کہ شہباز شریف ہی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالیں کیوں کہ اُن کے شریف خاندان کے ساتھ دیرینہ تعلقات استوار ہیں اور سعودی عرب کو جس صورتحال کا اس وقت سامنا ہے اس کے تناظر میں وہ چاہیں گے کہ پاکستان کی حکومت، فوج اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ اُن کی مشکلات اور مسائل کو بھائیوں کی طرح سمجھیں اور حل کرنے میں مدد دیں۔
لیکن شریف برادران کے دورہ سعودی عرب نے پاکستان کے اندر سیاست میں مزید گرما گرمی پیدا کی اور اس شبہ کو ہوا دی کہ کوئی این آر او ہونے جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ شہباز شریف کو سعودی عرب کیوں بلایا گیا؟ بات تو ٹھیک ہے جب وزارت عظمی کے امیدوار تین ہیں تو خصوصی کرم صرف ایک پر کیوں؟
ممکنہ طور پر شہباز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی الیکشن جیت کر وزیراعظم بن سکتا ہے تو پھر سعودی حکمرانوں نے صرف شہباز شریف کو ہی کیوں بلایا؟
اس امتیازی سلوک کے تناظر میں مطالبہ تو بنتا ہے کہ سعودی عرب دو مزید خصوصی طیارے پاکستان بجھوا کر عمران خان اور بلاول زرداری کو بھی سعودی عرب کا دورہ کروائیں۔
یہ تحریر 4 جنوری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔