04 جنوری ، 2018
میڈیا پر پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کی ایک جلسے میں تقریر سن کر حیرت ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ کسان پریشان ہے، گنے کی فصل تیار ہے لیکن خریدی نہیں جارہی۔
بلاول بھٹو یا تو لاعلم ہیں یا انہیں اصل معاملہ بتایا نہیں گیا کہ سندھ میں بڑی تعداد میں شوگر ملیں کس کی ملکیت ہیں اور کاشت کاروں سے گنا نہ خریدنے پر کون پشت پناہی کررہا ہے۔
سندھ اور پنجاب میں گنے کی فصل کی کٹائی کے موقع پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ کاشت کار مناسب دام نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور حال ہی میں پنجاب میں ایک کاشت کار نے مناسب دام نہ ملنے پر اپنی تیار فصل کو آگ لگائی، شاید کسان نے اقبال کے اس شعر پر عمل کر کے دکھایا:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کسان کو اس کا بنیادی حق نہ ملنا جہاں باعث تشویش ہے وہیں اس کے پس پردہ بڑے مگرمچھ کارفرماں ہیں، گنے کے کاشتکاروں کو مناسب دام نہ ملنے کا مسئلہ شروع سے ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک شوگر ملز مالکان کو قانونی دائرہ میں نہیں لایا جاتا۔
بدقسمتی ہے کہ سندھ کی 32 میں سے درجن سے زائد شوگر ملیں ایک ہی گروپ کی ہیں اور شوگر ملوں پر اجارہ داری حاصل کرنے والے گروپ کی پشت پناہی طاقتور حکومتی خاندان کر رہا ہے، اگر بلاول کو کسانوں کے درد کا احساس ہے تو انگلیوں پر گنے جانے والے مگرمچھوں سے پوچھیں کہ وہ کسانوں پر مظالم کیوں ڈھا رہے ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے گنے کی فی من قیمت 182 روپے مقرر کرنے کے باوجود کاشت کاروں کو ان کا یہ حق نہیں ملتا، جس کی اصل وجہ مل مالکان کا مقررہ وقت پر گنا نہ خریدنا ہے، فصل تیار ہونے پر کاشتکاروں کی جانب سے گنا اگر شوگر ملز تک لایا بھی جائے تو اسے فوری طور پر نہیں خریدا جاتا۔
گنے کو کوڑیوں کے دام خریدنے کے لئے مڈل مین ( آڑھتی) سرگرم رہتا ہے جو کسان کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھا کر من مانی قیمت پر گنا خریدتا ہے، کسان تھک ہار کر یا تو آڑھتی یا پھر بڑے مگرمچھوں کو فصل بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
سستی فصل ملنے پر آڑھتی بعدازاں اسی فصل کو شوگر ملوں کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کردیتا ہے، اس طرح شوگر ملز مالکان اور مڈل مین کے گٹھ جوڑ میں بیچارا کسان پس کر رہ جاتا ہے اور اسے اس کا بنیادی حق نہیں مل پاتا۔
سندھ میں کاشتکاروں کو درپیش مشکلات کا براہ راست تعلق حکمران اور شوگر ملوں پر اجارہ داری حاصل کرنے والے گروپ سے ہے، سندھ کے مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں کاشت کار احتجاج کے ساتھ دھرنوں پر مجبور ہیں، اس سلسلے میں کراچی سمیت مختلف شہروں میں احتجاج بھی ہوئے لیکن اب تک گنے کی خریداری کا کوئی فارمولہ طے نہ ہوا۔
گنے کی فصل تیار ہوکر کٹ چکی ہے لیکن شوگر ملز مالکان اسے سستے داموں خریدنا چاہتے ہیں ساتھ ہی حکومت سے سبسڈی بھی مانگ رہے ہیں، احتجاج کرنے والے کاشتکار رہنما اومنی گروپ کو بھی اس بحران کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
سندھ آباد گار بورڈ کے رہنما عبدالمجید نظامانی کا کہنا ہے کہ ہر سال گنے کی فصل پر یہ مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے، سندھ ہائی کورٹ گنے کی فی من قیمت 182 روپے مقرر کرچکی ہے لیکن شوگر مل مالکان مقررہ قیمت بھی نہیں دے رہے اور کرشنگ بھی شروع نہیں کررہے۔
کاشت کار اس وجہ سے بھی پریشان ہیں کہ فصل تیار ہوئے 2 ماہ ہوگئے اور ان کی فصل اب تک نہیں خریدی گئی جس کی وجہ سے انہیں دوسری فصل کاشت کرنے میں تاخیر کا سامنا ہے، شوگر ملوں کی جانب سے گنا نہ خریدے جانے کی وجہ سے مستقبل میں زرعی اجناس کی کمی اور مویشیوں کے چارے اور خوراک کا بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت سندھ میں گنے کے بحران کا ذمہ دار حکومت پنجاب اور وفاق کو قرار دے رہی ہے، جس کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ پنجاب سے سندھ آنے والا گنا کم قیمت میں شوگر ملوں کو فراہم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے مقامی کاشتکار پریشان ہے۔
لیکن کاشتکار سندھ حکومت کے موقف سے مطمئن ہیں اور انہیں بھی معلوم ہے کہ کس کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے شوگر ملزم مالکان گنے کی فصل کیوں نہیں خرید رہے۔
اور اب معاملہ یہاں تک جاپہنچا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزراء کاشتکاروں کو مزید کسی بڑے احتجاج سے روکنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں، عام انتخابات قریب قریب ہیں اور وزرا کوشش کر رہے ہیں کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے جلسوں میں کوئی گڑ بڑ نہ ہوجائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔